Nisbat e Shohar/ISLAMIC ARTICLES

نسبتِ شوہر

سوال: کیا نکاح کے بعد بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے؟ بعض لوگ اس کو حرام اور کفار کا طریقہ قرار دیتے ہیں؟

Affection, Bride And Groom, Couple, Love, husband & wife, husband ka nam wife apny nam ky sath
nisbate shohar                                                                                                                        

جواب: بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ 
مسئلے ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ (الاحزاب)

آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اُن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:

1۔ جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔"(بخاری،مسلم)

2۔  نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔ (بخاری،مسلم)

3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے آبا و اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔(بخاری،مسلم)

4۔ رسولﷲﷺ  نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر ﷲ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔( ابن ماجه)

قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 

سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔

1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔(التحريم)

2۔ اور اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجۂِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔"(التحريم)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے اور حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے۔

3۔ حضرت عبد اﷲ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(ﷺ)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ. حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔(بخاری)

اس موقع پر حضور نبی کریمﷺ کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد ﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپﷺ نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔

4۔ حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا: هَذِهِ زَوْجَةُ النَّبِيِّ. یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔(بخاری)

5۔ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، مَيْمُونَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، حَفْصَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، صَفِيَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ، سَوْدَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ.

قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔

سوال:  اسلئے جو علماء یہ کہتے ہیں کہ بیوی اپنے شوہر کا نام ساتھ نہیں لگا سکتی، اُن سے سوال ہے کہ جہاں پوچھا جائے کہ آپ کے خاوند کا نام کیا ہے، وہاں کیا  شوہر کا نام بتانا حرام ہے؟ جہاں ریکارڈ میں لکھا ہو کہ یہاں خاوند کا نام لکھا جائے وہاں لکھنا حرام ہے؟

Post a Comment

0 Comments