حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی غلامیء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم تھے۔ وہ ایک قافلے کے ساتھ اپنے ننھیال جا رہے تھے کہ ایک ناگہانی مصیبت کا شکار ہو گئے۔ بنو قیس نے اُن کے قافلے کو لوٹ لیا۔ حکیم بن حزام نے کمسن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنو قیس سے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لئے خرید لیا۔ جب انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کا اعزاز حاصل ہوا تو انہوں نے زید کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا، یوں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز حاصل ہوا۔اور حضرت زید نبی کے منہ بولے بیٹے بھی تھے۔
قافلے کے لوٹے جانے کی خبر سے قیامت ٹوٹ پڑی اور زید کے والدین کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ زید زندہ بھی ہے یا نہیں۔ وہ بیٹے کی جدائی سے بہت پریشان تھے اُنہوں نے اس کی تلاش جاری رکھی۔ حج پر آئے ہوئے لوگوں نے زید کو پہچان لیا اور انہیں ان کے والد کی حالتِ زار سے آگاہ گیا۔ زید کے والد کو جب بیٹے کا سراغ ملا تو اس نے دولت جمع کر کے اونٹوں پر لاد لی اور وہ مکہ پہنچے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض پیرا ہوئے کہ اے محمدٌ میں نے سنا آپ بہت سخی ہو بہت کریم او رحیم او۔
میرے آقاٌ نے فرمایا وجہ بیان کرو آنے کی۔ وہ کہنے لگا میں زید کا باپ ہوں آپ زید کو فدیہ لے کر آزاد کر دیں، ہم زندگی بھر آپ کے ممنونِ احسان رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے پر میری ایک شرط ہے کہ اگر زید تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میں کسی قسم کا فدیہ لئے بغیر ہی اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن اگر زید تمھارے ساتھ نہ جانا چاہے میںٌ زبردستی نہیں بھیجیوں گا۔ والد جلدی سے کہنے لگا ٹھیک ہے۔حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا۔ پوچھا گیا : جب حضرت زید نے اپنے والد کو دیکھا سارا معاملہ سمجھ گئے میرے والدِ گرامی آئے ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اگر اپنے والد کے ساتھ جانا چاہو تو بخوشی جا سکتے ہو۔ حضرت زید دور سے کھڑے ہو کر رونے لگے اور فرمانے لگے یا نبی اللہٌ آپکو آپکی رحمت کا واسطہ ہے مجھے اپنے باپ کے ساتھ نہ بھیجنا۔ میں یہاں آپٌ کا غلام بن کر رہنا چاہتا ہوں، اور کہا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کےقدموں سے جدا نہیں ہونا چاہتا۔
ما أنا بالذی أختار عليک أحداً! أنت مني بمکان الأب والأم فقالا : ويحک يا زيد! أتختار العبودية علي الحرية، و علي أبيک و عمک و أهل بيتک؟ قال : نعم، إني قد رأيت من هذا الرجل شيئاً ما أنا بالذي أختار عليه أحداً أبداً. فلما رأي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذالک، أخرجه إلي الحجر، فقال : يا من حَضَرَ اشهدوا أن زيداً ابني أرثه و يرثني، فلما رأي ذالک أبوه و عمه طابت أنفسها و انصرفا.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 242
قرطبي، تفسير، 14 : 3118
ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 6351
حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 5439
عسقلاني، الاصابه، 2 : 4599
ابن الجوزي، صفوة الصفوه، 1 : 381
’’(یارسول اللہ!) میں آپ کے مقابلے میں بھلا کسی اور کو ترجیح دے سکتا ہوں! آپ میرے لئے ماں باپ کے مقام پر ہیں۔ اس بات پر ان دونوں (آپ کے والد اور چچا) نے کہا ارے زید! تو ہلاک ہو، غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہو؟ اور اپنے والد، چچا اور سب گھر والوں کو چھوڑ رہے ہو؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ہاں بے شک میں نے اس شخص (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسی بات دیکھی ہے جس کے مقابلے میں کسی اور چیز کو پسند نہیں کر سکتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات سنی تو خوش ہو کر اُنہیں اپنی آغوش میں لیا اور حاضرین کو گواہ بنا کر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے، ہم ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جب ان کے باپ اور چچا نے یہ منظر دیکھا تو نہایت خوش ہوئے اور انہیں (حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس) چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔‘‘
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment