کسی بادشاہ نے ایک تیلی سے دریافت کیا کہ ایک من تلوں سے کتنا تیل نکلتا ہے؟ تیلی نے کہا دس سیر۔ پھر پوچھا دس سیر میں سے؟ تیلی نے کہا اڑھائی سیر۔ بادشاہ نے پوچھا‘ اڑھائی سیر میں سے؟ تیلی نے کہا اڑھائی پائو۔۔ سلسلہ سوالا ت کے آخر میں بادشاہ نے پوچھا،
ایک تل میں سے کتنا تیل نکل سکتا ہے؟ تیلی نے جواب دیا کہ جس سے ناخن کا سرا تر ہو سکے۔ کاروبار میں تیلی کی اس ہوشیاری سے بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ علم دین سے بھی کچھ واقفیت ہے؟ تیلی نے کہا نہیں۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا دنیاوی کاروبار میں اس قدر ہوشیار اور علم دین سے بالکل بے خبری۔اس کوقید خانہ میں لے جائو۔ جب تیلی کو قید خانے میں لے جانے لگے ‘ تو تیلی کا لڑکا خدمت میں عرض کرنے لگا ’’ میرے باپ کے جرم سے مجھے مطلع فرمائیں تو کرم شاہانہ سے بعید نہ ہوگا۔ ‘‘ بادشاہ نے کہا’’تیرا باپ اپنے کاروبار میں تو اس قدر ہوشیار ہے لیکن علم دین سے بالکل بے بہرہ ہے۔ اس لیے اس کی غفلت کی سزا میں اس کو قید خانے بھیجا جاتا ہے۔ ‘‘ تیلی کے لڑکے نے دست بستہ عرض کی’’حضور! یہ قصور اس کے باپ کا ہے جس نے اس کو تعلیم سے بے بہرہ رکھا‘ نہ کہ میرے باپ کا؟ میرے با پ کا قصور اس حالت میں قابل مواخذہ ہوتا اگر وہ مجھے تعلیم نہ دلاتا۔لیکن میراباپ مجھے تعلیم دلا رہا ہے۔ باقی حضور کا اختیار ہے۔‘ ‘ بادشاہ لڑکے کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور کہا’’ تمہاری تھوڑی سی تعلیم نے نہ صرف تمہارے باپ کو مصیبت قید سے چھڑا لیا‘ بلکہ تم کو بھی مستحق انعام ٹھہرایا۔ ‘‘ چنانچہ بادشاہ نے تیلی کو رہا کر دیا اور اس کے لڑکے کو معقول انعام دے کر رخصت کیا۔(حکایات رومی)
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment