محبوب چیز کھوجانے کے بعد ،واپس ملتی ہے؟
رنگوں اور خوبصورتی سے مزین اس دنیا میں کچھ لوگ اور چیزیں ہمارے دِل کے بہت قریب آجاتی ہیں اور ہم ان کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ایسے میں پھر جب کوئی چیز کھوجاتی ہے تو ہم بے چین اور بے سکون ہوجاتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کو چھوڑنا مشکل ہے لیکن کسی کو کھو دینا ،اس سے زیادہ مشکل ہے۔کچھ ہفتے قبل میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا تھا کہ ’’لوگوں کو ایک دوسرے کو چھوڑنا کیوں پڑتا ہے ؟‘‘اس سوال نے مجھے اپنی زندگی کے چند گہرے رشتوں اور کوششوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔اس کے ساتھ ساتھ اس سوال نے ایک حیر ت انگیز چیز کی طرف میری رہنمائی بھی کی کہ کیا وہ لو گ جو چھوڑ جاتے ہیں ،وہ کبھی واپس آتے ہیں ؟کسی چیز سے پیار کرلینے کے بعدجب وہ ہم سے لے لی جاتی ہے توکیا وہ واپس ملتی ہے ؟چیزوں کایہ کھودینا ہمیشہ کے لیے ہے یا یہ کسی عظیم مقصد کی خاطر ہے؟کیا کھوجانا ،بذاتِ خود اختتام ہے یایہ ہمارے دِل کی بیماریوں کاعارضی علاج ؟
زندگی میں چند چیزیں بہت حیرت انگیز ہیں۔وہ دنیاوی نعمت جو کہ ہمارے تکلیف کا باعث ہے وہ ہمیں خوشی بھی دیتی ہے۔لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس دنیا میں موجو د کوئی بھی چیز یہاں رہنے والی نہیں ہے۔ کیا مطلب ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے گھر کے گلدا ن میں موجودایک زندہ اور خوبصورت پھول آج کے لیے تو ہے لیکن کل وہ مرجھا جائے گا۔ایسا ہی میرا دردایک دِن مرجائے گا۔میری ہنسی ہمیشہ نہیں رہنے والی اور نہ ہی میرے آنسو رہیں گے ۔ان تمام حقائق کو دیکھ کر شایدہم یہ کہیں کہ یہ زندگی کامل نہیں ، یہ ہر اعتبار سے مکمل اور بہتر نہیں ہے مگر۔۔۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ بالکل بری بھی نہیں ہے۔اللہ رب العزت قرآن میں بہت خوب صورت انداز میں بتاتا ہے :’’یقینا ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘(سورۃ الشرح:5)
عمر کے لحاظ سے میں بڑی تو ہوگئی لیکن میں نے اس آیت کے مفہوم کو غلط سمجھا ۔میں اس کا ترجمہ کرتی تھی :’’ہرمشکل کے بعد آسانی ہے۔‘‘دوسرے الفاظ میں میرا خیال یہ تھا کہ زندگی اچھائی اور برائی سے بنی ہے اور برے وقت کے بعد اچھا وقت آتا ہے ۔میرا خیال تھا کہ یہ زندگی ساری اچھی ہے یا ساری بری ،مگر آیت میں جو بیان ہوا ہے میرا خیال اس کے مطابق نہیں تھا۔آیت کہتی ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔جس وقت میں مشکل وقت ہے ،اسی میں آسانی بھی ہے۔یہ کہتی ہے کہ زندگی تمام کی تمام بری نہیں ہے (اور نہ ہی اچھی )۔ہماری زندگی کی جو گھڑی بھی مشکل ہوتی ہے وہیں ہمیشہ کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے۔مشکل وقت میں اللہ ہمیں برداشت کا حوصلہ اور طاقت دیتا ہے ۔
اگر ہم اپنی زندگی کے مختلف اوقات پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگاکہ وہ سب توبہت ساری خوبیوں سے بھرے ہوئے تھے ۔سوال یہ ہے کہ ہم اپنی توجہ کس چیز پر دیتے ہیں؟میرے خیال میں ہم ایک دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اوراس کی جڑیں اس غلط یقین کے ساتھ ہیں کہ یہ زندگی مکمل طورپر یا تواچھی ہے اور یا بری ہے ،حالانکہ یہ زندگی کی فطرت نہیں ،یہ فطرت فقط آخرت کی ہے ۔آخرت ہی ہر اعتبار سے کامل ہے ۔جنت مکمل طورپر کامل اورایک بہترین مقام ہے جس میں کسی راحت وسرور کی کوئی کمی نہیں اور جہنم (اللہ ہم سب کو اس سے بچائے) مکمل اور یقینی طورپر بدترین مقام ہے،جس میں کسی اذیت و عذاب کی کمی نہیں۔
مگر ہمارے معاشرے میں اس سچائی کو درست طورپر نہیں سمجھا جاتا،میں خود بھی لمحہ بہ لمحہ زندگی کے حالات(اچھے اور برے دونوں) سے دوچار ہوئی۔میری زندگی میں آنے والے وہ تمام حالات جو کسی اختتام اور نتیجے تک پہنچتے ہوں یا نہ پہنچے ہوں،میں ان سب کا بغور مشاہدہ کرتی ہوں۔میں نے ایک حیرت انگیز چیزیہ محسوس کی کہ میں پوری دنیااور ہر چیز کو بدل سکتی ہوں۔اگر میں ماضی ، حال اوردورو قریب میں خوش ہوں تو تمام دنیابھی اس لمحے خوش اور بہترین ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے احساس سے زندگی کو کامل طورپر خوش یا غمگین بناسکتا ہے ۔ یہی سب کچھ برے وقت کے ساتھ بھی ہوتا ہے،کیونکہ وہ وقت بھی انسان کی پوری دنیا بن جاتی ہے اور وہ اس کے باہر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا۔
جب میں چلاتی ہوں یا کسی چیز کو کھوتی ہوں یا مجھے چوٹ لگتی ہے تو میں دل کو چھوٹا نہیں کرتی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں،میری زندگی میں کوئی بھی وقت ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔جب تک آئندہ کل باقی ہے،ایک نئے لمحے کی امید رہے گی ،ہر چیز میں تبدیلی ہوتی رہے گی اور دُکھوں سے رہائی ملتی رہے گی ۔یادرکھیں !جو کچھ بھی کھوجاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا ۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی کھوئی ہوئی چیز واپس آتی ہے ؟اس کا جواب تلاش کرنے میں میری نظروں کے سامنے بہت خوبصورت مثالیں گزریں اور جو سوال بن کر میری تسلی کرگئیں۔کیا حضرت یوسفؑ اپنے والد کو واپس نہیں ہوئے؟کیا حضرت موسیٰ ؑاپنی والدہ کو واپس نہیں ہوئے؟ کیا ہاجرہ حضرت ابراہیم ؑکو واپس نہیں ہوئیں؟کیا صحت،مال او ر اولادحضرت ایوب ؑکو واپس نہیں ہوئے ؟
ان مثالوں سے ہم ایک مضبوط اور خوبصورت سبق سیکھ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ ’’جو کچھ اللہ لے لیتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا۔‘‘دراصل باقی وہی ہے جو اللہ کے پاس ہے ۔اس کے علاوہ سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔اللہ فرماتا ہے :جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے کبھی ختم نہیں ہوگااور ہم صبر کرنے والوں کو ضرور بدلہ دیں گے ان اچھے کاموں کا جو وہ کرتے تھے۔(سورۃ النحل: 96)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:تم اللہ کی خاطرکسی بھی چیز کو نہیں چھوڑتے مگر اللہ اس کے بدلے میں وہ چیز دے دیتا ہے جو اس سے بہترین ہوتی ہے ۔(رواہ احمد)آپ تاریخ اسلام دیکھیں تومعلوم ہوگا کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ام سلمہ ؓ سے ا ن کا شوہر لے لیااور بدلے میں انہیں ایک بہترین شوہر یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دے دیا۔کبھی کبھار اللہ دینے کے لیے لیتا ہے ۔مگر یہ بات سمجھناضروری ہے کہ اس کا دیناہمارے ناقص عقل کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی قدرت اور علم کے مطابق ہمارے بارے میں جانتا ہے کہ کو ن سی چیزہمارے لیے بہتر ہے ،چنانچہ وہ قرآن میں فرماتا ہے :ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم ناگوار سمجھو مگر وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرواور وہ تمہارے لیے نقصان دہ ہو اور اللہ ہی جانتا ہے او ر تم نہیں جانتے۔(سورۃ البقرۃ:216)
اللہ نے ہمیں نعمتیں دیں لیکن ہم میں سے اکثر لوگوں نے ان نعمتوں کو محبوب بنالیا اور یوں وہ ہماری محتاجی بن گئی ۔حالانکہ ایک مسلمان کوصرف اللہ کا محتاج ہوناچاہیے ۔وہ ہمیں پیسے دیتا ہے توہم اس ذات پر منحصر ہونے کے بجائے پیسوں پر ہی منحصر ہوجاتے ہیں۔جب وہ ہمیں لوگ دیتا ہے تو ہم لوگوں پر منحصر ہوجاتے ہیں ۔جب وہ ہمیں عہدہ یا طاقت دیتا ہے توہم اس پر منحصر ہوجاتے ہیں اور ان چیزوں میں اپنے آپ کو مشغول کرلیتے ہیں ۔جب وہ ہمیں صحت دیتا ہے توہم اس دھوکے میں پڑجاتے ہیں کہ ہم کبھی نہیں مریں گے ۔اللہ ہمیں نعمتیں دیتا ہے تو ہم ان سے ایسا پیار کرنے لگ جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے لیے اور کچھ بھی اہم نہیں ہے۔ہم اپنے مقصدِاصلی سے بھٹک جاتے ہیں۔ہم ا ن تمام نعمتوں کو اپنے دِل میں بسالیتے ہیں ،یہاں تک کہ وہ ہم پر غالب آجاتی ہیں ۔نتیجتاً جلد ہی پھر ایسا ہوجاتا ہے کہ ہم ان کے بغیر نہیں جی سکتے۔ہر جاگتا لمحہ اس کے بارے میں غور کرنے ،مانگنے اور اس کی پوجا کرنے میں گزرتا ہے ۔
ہر وہ چیز جو کہ ہمارے ہاتھ میں ہونی چاہیے جب وہ ہمارے دِل میں آجا تی ہے توپھر کھوجانے کا خوف ہمیں استعمال کرتا ہے۔جلد ہی وہ نعمت ایک اذیت ناک ہتھیار بن کر ہمیں تڑپاتا ہے اور یوں ہم اپنی ہی بنائی ہوئی چیزوں کے جیل میں قید ہوجاتے ہیں۔اس سے آزادی کیسے ممکن ہے؟اپنی بساط کے مطابق ہم اس جیل سے رہا نہیں ہوسکتے بس رب ہی اپنی بے پایاں رحمتوں اور اپنے عفو وکرم سے ہمیں وہاں سے رہائی دیتا ہے۔نعمتیں واپس لینے کے بعد جب ہمیں شعور ملتا ہے تو ہم پورے دِل سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔مایوسی اور محتاجی کے اس عالم میں ہم اس سے مانگتے ہیں ،التجا کرتے ہیں ، دعا کرتے ہیں ۔کسی چیز کے کھوجانے کی وجہ سے ،ہم اخلاص اور عاجزی کے اعلیٰ درجے پر پہنچ جاتے ہیں اور صر ف ا س ذات کے محتاج بن جاتے ہیں کہ اگر ہمیں کھوجانے کا دُکھ نہ ملتا تو شاید ہم اس تک نہ پہنچ سکتے۔اس ’’کھوجانے‘‘کی وجہ سے ہمارے دِل تمام کے تمام اس کی طرف متوجہ گئے ۔
جب آپ پہلی دفعہ ایک بچے کو کھلونا یا ویڈیو گیم لے کر دیتے ہیں ،جو وہ ہمیشہ مانگتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟وہ اس کے ساتھ مصروف ہوجاتا ہے ۔جلد ہی وہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کی خواہش نہیں کرتا۔وہ اپنا کوئی اور کام حتیٰ کہ کھانا بھی نہیں کھانا چاہتا ۔وہ اپناپسندیدہ کھلونا مل جانے کی خوشی میں سرشار ہوتا ہے ۔تواب مہربان والدین کی حیثیت سے آپ کیا کریں گے؟کیا آپ اپنے بچے کو کھلونے کی لت میں ڈوبا ہوا چھوڑیں گے اوراس کی ساری توجہ اس بے مقصد چیز میں برباد ہونےد یں گے ؟نہیں !آپ یقینا اپنے بچے کو کھلونے سے دُور کرنے کی کوشش کریں گے۔اگربچے کا زیادہ وقت اس کھلونے کے ساتھ نہ گزرا ہو تو لے لیے جانے کے بعد وہ اپنی توجہ اور حواس کو بحال رکھ سکتا ہے لیکن اگر ایک باراس چیز نے اس کے دِل ، ذہن اور زندگی میں جگہ پکڑلی اور وہ اس کا عادی ہوگیا تو پھر اس سے کھلونا لے لینے کی صورت میں وہ ایسا ردِعمل دے سکتا ہےجو انتہائی پریشانی کا باعث ہو۔
کوئی چیز کھوگئی اور پھر مل گئی تو اس کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں۔حقیقی فائدہ تو یہ ہے کہ اگر انسان سے کچھ کھوجائے تو وہ اپنی محتاجی اور انکساری کواس رب کی طرف مبذول کردے جس نے اس کوبنایا ہے ،یہی حقیقی تحفہ ہے اور اسی وجہ سے اللہ ہمیں زیاد ہ نعمتیں نہیں دیتا کیونکہ وہ اپنے بندے کے دِل میں اپنی محبت دیکھنا چاہتا ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے انسان کی پسندیدہ چیز کو اللہ لے لیتا ہے اور وہ چیز عنایت کردیتا ہے جو اللہ کے نزدیک عظیم ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مالک بن دینارؒکی بیٹی لے لی مگر اس کو جہنم کی آگ سے بچایا اور اس کو گناہوں بھری زندگی سے نجا ت دے دی ۔مالک بن دینارؒاس کھوجانے پر خوش تھے ،کیونکہ یہ زندگی اللہ کے قریب تھی اور اگر چہ اس سے ایک نعمت لے لی گئی لیکن بدلے میں اس کو ہمیشہ کے لیے جہنم سے بچالیاگیا ۔
حضرت ابن القیم ؒاپنی کتاب مدارج السالکین میں یہ بیان کرتے ہیں :
’’یقین کرنے والے انسان کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے اور جوانسان جس چیز کی خواہش کرے اور وہ اس سے روک دی جائی تواس کے ساتھ اللہ کافضل ضرور ہوتا ہے۔یہ اس کے لیے نعمت ہوتی ہے۔شاید یہ ایک آزمائش ہو اور اس میں تکلیف بھی ہو لیکن درحقیقت یہ ایک علاج ہے جو کہ انسان کو بیماری لگ رہی ہوتی ہے۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ایک دفعہ جب کوئی چیز کھوگئی توکیا وہ واپس آتی ہے؟جواب ہے کہ ہاں! وہ واپس ملتی ہے ۔کبھی دنیا تو کبھی آخرت میں ،کبھی اس سے بہتر صورت میں ،لیکن انسان کو بدلے میں ملنے والا عظیم تحفہ اس سے چھن جانے والی نعمت کے مقابلے میں بہت بڑھ کر ہوتا ہے اور وہ اپنے اجر کے اعتبار سے اللہ کے فضل و کرم کے شایانِ شان ہوتا ہے۔اللہ ہمیں یہی فرماتا ہے:’’کہہ دیجیے کہ لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے وہ اس سے بدرجہا بہترہے جس کو وہ جمع کررہے ہیں۔‘‘(سورۃ یونس:58)
دنیا میں رہنا ضروری ہے لیکن یہاں کی چیزوں کو دِل پر غالب نہیں دینا ،دِ ل کو صرف اللہ کے لیے رکھنا ہے اور اگر یہاں کچھ کھوبھی گیا تو یہ یقین رکھیں کہ اس کا بہترین بدلہ ملنے والا ہے۔ایسا نعم البدل جو یقینا آپ کے دِل سے کھوجانے کا افسوس ختم کردے گا اور خوشی و اطمینان دے دے گا۔
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment