اوئے بشیر تیری بیوی تو بہت سوہنی ہے قسم سے
دیکھ ذرا ماشااللہ کتنا حسن اے اس دے چہرے پہ
دوست بشیر سے شرارتیں کر رہے تھے
آج بشیر کی شادی تھی
بشیر نے چلاتے ہوئے کہا
شرم تو آتی نہیں نا بھابھی ہے تم لوگوں کی
دوستوں نے کہا بھابھی بھی ہے بہن بھی ہے ہماری
یار ہم تو ایسے ہی مذاق کر رہے
حائمہ کو خدا نے بہت خوبصورت بنایا تھا
حائمہ اخلاق کی خوشبو تھی مسکراتی ہوئے چاند سی لگتی تھی
حائمہ کی شادی بشیر سے ہوئی تھی اریج میرج تھی
بشیر نے حائمہ کو اور حائمہ نے بشیر کو صرف تصویر میں ہی دیکھا تھا
نکاح ہوا قبول ہے کہا
ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی
ایک نیا سفر شروع ہوا
کچھ رشتے پرانے پرائے ہوئے
کچھ پرائے لوگ اپنے ہوئے
حائمہ بشیر کے ہاتھ تھامے زندگی کی روشنی کی طرف چل دی
دل میں ڈر سا تھا
آنکھوں میں کچھ خواب سے تھے
لیکن ایک خوف بھی ستا رہا تھا
یا خدا بشیر کو ایک سمجھنے والا انسان بنانا
ایسا ہمسفر جو میرے درد میرے دکھ کو سمجھ سکے
میری خاموشی کو سمجھ سکے
پہلی رات تھی
بشیر ہاتھ میں ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوا
پاس بیٹھ گیا حائمہ بھوک تو نہیں لگی
حائمہ نے دھیمی سی آواز میں کہا لگی ہے
بشیر کو یوں لگا جیسے حائمہ نے کہا ہو نہیں لگی
بشیر نے مسکراتے ہوئے کہا مجھے تو لگی ہے بھئی میں تو لگا ہوں کھانے
بشیر نے پلیٹ میں چاول ڈالے اس پہ چکن ڈالا اور مزے سے کھانے لگا
حائمہ گھونگٹ سے دیکھ رہی تھی
بھوک بے حد لگی ہوئی تھی لیکن شرما رہی تھی
سوچ رہی تھی کیسا بندہ ہے مجھے بھوک لگی ہوئی اور خود کھا رہا
بشیر نے کہا حائمہ قسم سے بہت مزے کے چاول بنے ہیں تم کو بھوک ہوتی کھاتی تو مزہ آ جاتا
حائمہ کو غصہ بھی بہت تھا خاموش رہی پہلی رات تھی
کھانا ختم کیا
محبت بھری باتیں شروع ہو گئی
یوں رات گزری
دن ہوا دوسرے دن کی ساری رسمیں ختم ہوئیں
جب بشیر حائمہ کے گھر گیا
حائمہ نے رات کو پوچھا بشیر آپ کو بھوک لگی ہے
بشیر نے کہا لو جی اتنی زیا دہ بھوک لگی ہوئی کیا بتاوں لگاو کھانا کھاتے ہیں
حائمہ نے کہا بشیر ویسے ایک بات کہوں آپ بہت بے وفا ہیں
بشیر نے کہا اب کیا ہوا
حائمہ نے کہا پہلی رات آپ کو میں نے کہا بھی تھا
مجھے بھوک لگی کھانا کھانا میں بھی
آپ میرے سامنے مزے لے لے کر کھاتے رہے
میں دیکھتی رہی آپ کو
آپ کو ذرا سا بھی ترس نہ آیا
شیر قہقہ لگا کر ہنسنے لگا
مسکراتے ہوئے کہنے لگا ہائے میری پاگل مجھے لگا تھا تم کہہ رہی ہو بھوک نہیں ہے
حائمہ نے کہا بس کریں اب
بشیر نے بازو پکڑا پاس بیٹھا لیا
اپنے ہاتھ سے نوالہ حائمہ کو کھلایا
حائمہ نے کہا بس کریں اب موٹو
بشیر نے کہا حائمہ تجھ پہ قربان میری ساری زندگی توں نا ہوا کر یوں کھٹی میٹھی سی ناراض مجھ سے
زندگی کا سفر پیار بھرے موسم سے شروع ہو گیا
بشیر اتنی محبت کرتا تھا حائمہ سے کے شاید کے زمانے میں کبھی کسی نے کسی سے کی ہو
حائمہ کپڑے پریس کر رہی تھی
حائمہ کا ہاتھ جل گیا حائمہ کی چیخ نکل گئی
بشیر صبح کا وقت تھا سو رہا تھا
بشیر بیڈ سے چلانگ لگا کر اٹھا
حائمہ کیا ہوا حائمہ نے کہا کچھ نہیں
تم نے چیخ ماری
حائمہ نے کہا ارے پاگل کچھ نہی ہوا بس تھوڑا سا ہاتھ جل گیا
بشیر نے ہاتھ دیکھا تھوڑا سا جلا تھا
بشیر نے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا
یہاں سے جلا تھا وہاں ہونٹ رکھ دیئے چومنے لگا
میری جان تم کو تھوڑا سا بھی درد ہو
مجھ سے برداشت نہیں ہوتا
چلو ایسا کرو تم ناشتہ تیار کرو کپڑے میں پریس کرتا ہوں
حائمہ نے کہا میرے موٹو میں کر لیتی ہوں آپ جاو شاور لو جا کر
بشیر نے ضد کی نہیں آپ ناشتہ تیار کرو میں کرتا ہوں کپڑے پریس
حائمہ نے ماتھے پہ بوسہ کیا اور کچھ می چلی گئی
بشیر کپڑے پریس کر رہا تھا
لیکن بشیر کو سیاپا پریس کرنے آتے نہیں تھے
لیکن مشکل سے الٹے سیدھے پریس کر ہی لیا
ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگا ہائے ربا شکر ہے مجھے لڑکی نہیں بنایا ورنہ میں تو مر جاتا
ناشتہ کیا کام پہ چلا گیا
کوئی امیرزادہ نہیں تھا بشیر لیکن حلال کی کمائی میں اچھا گزارہ ہو رہا تھا زندگی کی ضروریات پوری ہو رہی تھی
حائمہ گارڈن میں بیٹھی تھی ہلکی سی ہوا چل رہی تھی
اتنے میں بارش برسنے لگی
مست ٹھنڈی ہوا
ہلکی ہلکی سی بارش
چمکتی ہوئی بجلی
چہچہانے ہوئے پرندے
وہ خوشنما موسم
وہ رنگین سا سماں
حائمہ بارش میں بھیگنے لگی اتنے میں بشیر آ گیا
بشیر نے دیکھا حائمہ بارش میں نہا رہی ہے
بشیر چپکے سے آیا حائمہ کو بانہوں میں اٹھا لیا
بھیگی ہوئی ذلفیں ان زلفوں سے ٹپکتا ہوا پانی بشیر کے چہرے پہ گر رہا تھا
بشیر نے کہا خدا کی قسم بہت خوبصورت لگ رہی ہو میری جان
حائمہ نے کہا بشیر پتا نا کیا میرا دل کر رہا گرم گرم پکوڑے کھانے کا اس موسم میں یا بریانی
بشیر نے کہا میں باہر نہیں جانے والا سن لو
مجھے ٹھنڈ لگ رہی
حائمہ نے ضد کی جاو نا بشیر پلیز نا
بشیر نے کہا جان نہیں ہو میری ضد نہ کرو نا
لیکن محبت کے سامنے ہار گیا
بازار گیا چکن لیا گھر آ رہا تھا کے بائک سلپ ہوئی اور گر گیا
کیچڑ سے سارا منہ گندا ہو گیا کپڑے گندے ہو گئے
گھر آیا حائمہ نے دیکھا
زور زور سے ہنسنے لگی
ہائے میرے پاگل یہ کیا بن کر آگئے
بشیر کانپتے آ آ آ آ ہونٹ کانپ رہے تھے
حائمہ نے پاس آ کر پائپ سے پانی ڈالا اس کا چہرہ صاف کیا
اسے پاس بٹھایا ٹاول سے اسے خوشک کیا
بشیر چھینکنے لگا
حائمہ مسکرا رہی تھی کوئی حال نہیں بشیر تمہارا بھی
بشیر نے کہا بہت ظالم بیوی ہو تم حائمہ
حائمہ نے سینے سے لگایا پاس بیٹھ گئی پاگل میں یوں ہی ستا رہی تھی تم کو
چلو یہ گرم گرم چائے پی لو پھر میں کھانا بناتی ہوں
بشیر کو کچھ سکون ملا
حائمہ کے کندھے پہ سر رکھے ہوئے سو گیا
حائمہ نے بشیر کو جگا کر بیڈ پہ سونے کا کہا اور کھانا بنانے لگ گئی
حائمہ بہت خوش تھی اتنی محبت کرنے والا ہمسفر ملا ہے
وقت گزرتا گیا
محبت یوں پروان چڑھتی رہی
حائمہ نے ایک دن کہا بشیر جانتے ہو آج ہمارے لیئے بہت خوشی کا دن ہے
بشیر نے کہا حائمہ تمہاری آنکھیں بتا رہی ہیں
کچھ بہت اچھا ہے
حائمہ نے بشیر کا ہاتھ پکڑا پیٹ پہ رکھا کہنے لگی بشیر اللہ نے ہماری سن لی آپ بابا بنے والے والے ہیں
بشیر کی آنکھ میں آنسو آگئے
حائمہ سچ کہہ رہی ہو
حائمہ نے ہاں میں سر ہلایا
بشیر نے حائمہ کو زور سے سینے سے لگایا
آئی لو یو میری جان
حائمہ مسکرانے لگی اللہ کبھی ہماری خوشیوں کو کسی کی نظر نہ لگے
حائمہ گھر کے کام کرتی لیکن حائمہ کو کمزوری محسوس ہونے لگی
اس کا سر درد رہنے لگا
ڈاکٹر نے کہا حائمہ کو آرام کی ضرورت ہے
بشیر نے کہا حائمہ میری جان آج کے بعد تم کچھ کام نہیں کرو گئ
میں کروں گا سب کچھ کھانا بناوں گا صفائی کروں گا سب کچھ میں کیا کروں گا
حائمہ نے کہا نہیں موٹو مجھے کچھ نہیں ہوتا
بشیر نے سر پی ہاتھ رکھا حائمہ جانتی ہو نا تم میری زندگی ہو تمہیں تھوڑا سا بھی درد ہو تو مجھے سکون نہیں آتا
چلو اب میں تمہارے لیئے دودھ گرم کر کے لاتا ہوں وہ پیو
حائمہ لیٹ گئی
بشیر دو دن گرم کر کے لایا
اپنے ہاتھ سے میڈیسن کھلائی پھر دودھ پلایا
حائمہ نے کہا بشیر کیا ہمیشہ یوں ہی چاہو گے نا
بشیر نے دیکھا حائمہ کہ آنکھوں میں آنسو تھے
بشیر نے آنسو صاف کیے مسکراتے ہوئے کہنے لگا
شادی صرف دو جسموں کا ملن تو نہیں ہوتا نا میری جان
اگر تم میرے لیئے میری خوشی کے لیئے اپنی ہر خواہش میرے قدموں پہ لٹا سکتی ہو تو
میں کیوں نہیں کر سکتا ایسا
کیا مردانگی عورت کو تھپڑ مارنے میں ہے
کیا مردانگی ہمسفر کو گالی دینے میں
حائمہ تم میری دونوں جہاں کی خوشی ہو
بشیر صبح اٹھتا ناشتہ بناتا
جوس بنا کر اپنے ہاتھوں سے حائمہ کو پلاتا
حائمہ اگر کہتی مجھے بھوک نہیں تو بشیر ضد کرتا نہیں حائمہ پینا پڑے گا تم کو سمجھی
بشیر برتن واش کرتا گھر کی صفائی کرتا
حائمہ کو پلکوں پہ سجا رکھا
بچے کی پیدائش کا وقت آ گیا
حائمہ کو بہت شدید درد ہو رہا تھا
بشیر جلدی سے ہسپتال لے گیا ڈاکٹرز نے چیک اپ کیا
ڈاکٹرز پریشان تھے
حائمہ درد سے تڑپ رہی تھی
بشیر پاس کھڑا ہاتھ میں ہاتھ لیئے حوصلہ دے رہا تھا حائمہ کو
ڈاکٹر نے بشیر کو اکیلے میں بتایا رپورٹ ٹھیک نہیں ہے
بشیر نے کہا کیا ہوا ڈاکٹر صاحب
ڈاکٹر نے کہا دیکھیں صاحب آپ کی بیوی کی دونوں کڈنی خراب ہو چکی ہیں
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے آپ کو بچہ چاہیئے یا بیوی
ہم دونوں میں سے ایک کو ہی بچا سکتے ہیں
بشیر کرسی پہ بیٹھ گیا
آنکھوں میں آنسو تھے یا اللہ یہ کیسا امتحاں ہے میرے لیئے
سامنے حائمہ اور بچے کا وہ احساس بھی تھا
ڈاکٹر نے کہا جلدی بتائیں کیا کرنا ہے ہمیں جلدی سے آپریشن کرنا ہو گا
بشیر حائمہ کے پاس گیا
حائمہ کی آنکھوں کو چوما مسکراتے ہوئے کہنے لگا میری پاگل پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا
یقین رکھو
میں ہوں نا تمہارے ساتھ
بشیر نے ڈاکٹر سے کہا مجھے میری حائمہ چاہیئے
ڈاکٹر نے کہا پھر اپنی بیوی کے لیئے ایک گردے کا بھی انتظام کریں جس کا خرچہ دس لاکھ ہو گا
بشیر نے کہا میں اپنا گردہ دوں گااپنی حائمہ کو
حائمہ موت سے لڑ رہی تھی یہاں ہمسفر کا ساتھ تھا
یہاں ایک سچی محبت کا امتحاں تھا
ڈاکٹرز نے 4 گھنٹے کا آپریشن کیا
حائمہ موت سے لڑتی رہی
ادھر بشیر کا بھی آپریشن چل۔رہا تھا
بشیر کی آنکھوں میں بے ہوشی میں بھی حائمہ کی تصویر تھی
آپریشن کے بعد جیسے ہی بشیر کو ہوش آئی
بشیر نے پہلی آواز حائمہ کو دی
میری حائمہ کہاں ہے میری حائمہ کیسی ہے نرس نے مسکراتے ہوئے کہا آپ کتنا پیار کرتے ہیں اپنی بیوی سے
بشیر نے کہا مجھے میری حائمہ کے پاس لے جاو
نرس نے حوصلہ دیا
مسکراتے ہوئے حائمہ کے پاس لے گئی
دیکھا حائمہ بے ہوش تھی
بشیر کی آنکھوں میں آنسو تھے میری شہزادی اٹھ جا نا
دیکھ نا تیرا بشیر تیرے پاس ہے
اٹھ نا حائمہ بات کر نا مجھ سے میری پاگل
حائمہ نے آنکھیں کھولتے آواز دی بشیر
بشیر نے ہاتھ تھاما جی میری جان میں دیکھو پاس ہوں تمہارے
حائمہ بار بار بشیر کا نام لے رہی تھی
بشیر نے روتے ہوئے حائمہ کا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگایا
میری جان دیکھ نا پاس ہوں تمہارے
حائمہ نے آنکھیں کھولیں بشیر سامنے تھا
حائمہ رونے لگی
حائمہ نے کہا بشیر ہمارا بچہ کہاں ہے
بشیر خاموش ہو گیا
ہمت نہیں تھی بتانے کی
اس سے پہلے کے بشیر کچھ بتاتا
ڈاکٹرز روم میں داخل ہوئے
ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا آپ دونوں جو اتنے پیار کرنے والے ہمسفر ہوں تو خدا بھی رحمت کر دیتا ہے
معجزانہ طور پہ اللہ کا شکر ہے آپ کا بیٹا بھی سہی سلامت ہے
اللہ نے آپ کو بیٹا عطا کیا ہے
بشیر کی خوشی کئ انتہا نہ رہی بچے کو گود میں اٹھایا چومنے لگا
خدا کا شکر ادا کرنے لگا
حائمہ کو جب پتہ چلا ساری بات کا
رونے لگی بشیر اتنی محبت
اتنی چاہت پاگل مرنے دیتے مجھے
بشیر نے ہونٹ پہ انگلی رکھی حائمہ تیرے بنا بشیر کی کیا زندگی
حائمہ نے بشیر کو سینے سے لگا لیا
یوں آیک ہمسفر نے اپنے ہمسفر کی سانس میں سانس لیکر کر ایک اچھا ہمسفر ہونے کا حق ادا کیا ۔اب ایک سوال چھوڑ کر جا رہا ہوں ان مردوں کے لیئے جو اپنی بیوی پہ ہاتھ اٹھاتے ہیں
وہ مرد جو بیوی کو گالی دیتے ہیں
وہ مرد جو انا میں طلاق طلاق طلاق بول کر اپنی ہمسفر کے منہ پہ اپنی گندی مردانگی تھوکتے ہیں
وہ مرد جو بیٹی پیدا ہونے پہ تشدد کرتے ہیں
وہ مرد جو دن بھر کام کرنے والی بیوی کو رات میں ایک محبت بھرا جملہ نہیں کہہ سکتے
وہ مرد جو سمجھتے ہیں بیوی ایک غلام ہے
بن جاو نا بشیر کی طرح خدا کی قسم زندگی جنت بن جائے گی۔
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment