منگولوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا. منگولوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا. اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی. مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے.
.
ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی. وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی. "منگول - یوروپئن ایکسز " کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی. وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی. مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے. جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا
.
اور یہ معرکہ ہوا
تاریخ تھی ستمبر 1260 اور میدان تھا عین جالوت
منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے. منگول طوفان جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا. وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا. کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا. مسلمانوں کے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی ، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی
طبل جنگ بجا. بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا. طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں. اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا. منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا. منگولوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا. وہ پہلے پسپا ہوئے اور پھر انہونی ہوئی منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے. مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا. معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھاگتے منگولوں کو عام شہری آبادی نے بھی قتل کرنا شروع کر دیا.
منگول ناقابل شکست ہیں" یہ وہم "عین جالوت" کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا
"غلاموں" نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلم سیاسی وجود کی جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا
اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے سالوں میں بیبرس نے منگول مفتوح علاقے بھی ان سے واپس چھین لیے. رکن الدین بیبرس نے اپنی خداداد صلاحیت سے" منگول یو روپئن نیکسس" کو بھی ٹوڑ ڈالا اور صلیبی جنگوں میں بھی فاتح رہا.
.
مسلم دنیا اپنے اس عظیم ہیرو کے متعلق بہت کم جانتی ہے
ایک ایسا ہیرو جس نے ان کے سیاسی وجود کی جنگ بڑی بے جگری سے لڑی. جس کی پشت پر کوئی قبیلہ بھی نہ تھا اور جو کبھی فقط چند دینار کے عوض بکا تھا لیکن جو مصائب کا مقابلہ کرنا جانتا تھا جو ہمت نہیں ہارتا تھا اور جو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑتا تھا
.
سلام سلطان رکن الدین بیبرس❤
اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے آمین
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment