Zindagi guzarny kay Asool/GENERAL ARTICLES

میانہ روی ،سکون و خوشحالی کا سبب 

 تاریخ میں ایک نام’’ سدارتھا‘‘ کا ہے جس کو گوتم بدھاکے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔گوتم کا ایک بہت معروف جملہ ہے جس کو تاریخ میں بار بار دہرا یا جاتا ہے کہ ’’میں نے دنیا اس لیے تیاگی کہ خواہش ہی نہ رہے ۔‘‘

Optimism, Optimistic, Pessimism, LIFE

کیونکہ جب خواہش نہ رہے گی تو پھر توقعات بھی نہیں رہیں گی ، نہ رشتے بنیں گے نہ تعلقات خراب ہوں گے،نہ غم آئیں گے ۔بدھا خواہشات کو تکلیفوں کے ساتھ جوڑتا ہے کہ خواہشات جتنی زیادہ ہوں،تکلیفیں بھی اتنی ہی ہوتی ہیں۔خواہش ایک فطرتی عمل ہے ۔ہر انسان جینے لیے خواہش اور خواب دیکھتا ہے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔خواہش جب تک ضرورت ہوتی ہے ،ٹھیک ہوتی ہے لیکن یہ جیسے ہی ضرورت سے اگلے درجے یعنی لالچ میں آ جاتی ہے تو پھر بڑی خطرناک ہوجاتی ہے،کیونکہ لالچ کی کوئی انتہاء نہیں ہے ۔انسانی نفسیات پر سب سے مستند بات اگر کسی کی ہوسکتی ہے تو وہ حضور اکرم ﷺ کی ذات ہے اور آپ ﷺ لالچ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’
 لالچی شخص کا پیٹ صر ف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔‘‘(صحیح البخاری)مطلب دنیا کا مال و زر اور ہر قسم کی آسائشیں اس کی بھوک مٹانے کے لیے ناکافی ہیں۔

ضروریات و خواہشات:
  سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ضروریات اور خواہشا ت میں فرق کیسے کریں گے؟
 اس کا آسان جواب یہ ہے کہ دین اسلام نے میانہ روی کاحکم دیا ہے اور میانہ روی کا معیار ہر انسان کے لیے مختلف ہے ۔اس کا اصول سب پرایک جیسا لاگو نہیں ہوتا ۔ عین ممکن ہے کہ کوئی 30لاکھ کی گاڑی میں میں گھوم رہا ہو اور کوئی دوسر ا شخص کہے کہ یہ اسراف ہے ، لیکن اس کی جگہ پر آکراگر سوچا جائے تو وہ میانہ روی ہو۔میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی وسعت اور تنگی کی انتہاء کو دیکھے اور اس کے بعد اپنے لیے درمیانی راہ کا تعین کرکے اس کے مطابق خرچہ کرے۔وہ خود سوچے کہ اگر وہ بالکل کنجوسی کا مظاہرہ کرے گاتو اس مقام پرہوگا اور اگر خرچے بالکل بڑھادے تو یہاں پر ہوگا۔اب کنجوسی اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے وہ میانہ روی ہے،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو میانہ روی اختیار کرے گا، وہ رسوا نہیں ہوگا۔
 میانہ روی صرف چیزوں کی خریداری تک محدودنہیں ،بلکہ ہر خواہش کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ انسان کچھ بھی کرنا چاہے کھانا پینا،پہننا ،خریدنا سب میں اس نے میانہ روی کو سامنے رکھنا ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو کنجوسی کی جائے اور نہ اسراف،بلکہ درمیانی راستے کا ا نتخاب کیا جائے کیونکہ جب انسان ضرورت کے وقت بھی پیسے نہ لگائے اور کنجوسی کرے تو وہ اپنا ہی مال خود استعمال نہیں کرتا،بلکہ اس کی آنے والی نسلیں کرتی ہیں ۔اسی طرح جو لوگ حد سے زیادہ خرچہ کرتے ہیں تو ان میں ریاکاری اور دِکھاوا بڑھ جاتا ہے ۔آپ اپنے معاشرے کی شادیوں اور دوسری تقاریب کا جائزہ لے لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اکثر چیزیں دِکھاوے کے لیے ہوتی ہیں ،حالانکہ جن لوگوں کو دِکھانے کے لیے بے تحاشا خرچے کیے جاتے ہیں وہ اس انسان کی خوشی پر خوش ہی نہیں ہوتے ،بلکہ الٹا حسد اور رقابت شروع کردیتے ہیں۔
Bitcoin, Financial, Idea, Lightbulb, MONEY

شریعت نے ہمیں پیسے کمانے سے منع نہیں کیا ،بلکہ پیسوں کی حرص اور لالچ سے منع کیا ہے ۔آپ کے پاس پندرہ ارب روپے ہے ، پندرہ لاکھ یا پندرہ ہزار ،بس ایک چیز نہیں ہونی چاہیے جس کو لالچ کہاجاتاہے۔کیونکہ لالچ جب بھی آتی ہے توپھر انسان ظلم کرتا ہے ۔وہ اپنی دولت کو ضرب دینا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ اس اندھے پن میں وہ دوسرے انسان کا گلہ ہی کاٹ دے۔شراب کے نشے میں انسان اپنے بھائی کا گریبان پکڑلیتا ہے مگر لالچ کے نشے میں وہ اس کو قتل بھی کرسکتا ہے۔آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں کتنے بادشاہ اور راجے ایسے گزرے ہیں جنہوں نے لالچ میں آکر اپنے ہی بھائی اور والد کو قتل کرڈالا،لہٰذاانسان کو لالچ سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
 عملی زندگی میں پیسہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔پیسے کابالکل نہ ہونا انسان کو فقیربنادیتا ہے اوربہت زیادہ ہونا دل میں مزید ہوس پیدا کردیتا ہے،جس سے انسان اللہ سے غافل ہوجاتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ زندگی میں پیسہ کتنا ہونا چاہیے ؟

Money, Cash, Earnings, Food, Wallet

اس کے کئی سارے جوابات ہیں:
(۱) آپ کے پاس زندگی میں پیسہ اتنے مقدار میں ہو کہ مزیدپیسے کی تمنا نہ رہے یعنی جو ہے، جتنا ہے اس پر راضی رہا جائے ۔ 
(۲) آپ کے پاس اتنی کشادگی ہو کہ دوسرے کو دیتے ہوئے تنگی محسوس نہ ہو۔اگر کسی کو دیتے ہوئے آپ کا دل تنگ ہورہاہو تو سمجھ لینا کہ ابھی بھی پیسے کی ہوس موجود ہے ۔(۳)اتنا مال ہو کہ آپ کے لیے چھوڑ کر جانا آسان ہو۔انسان مررہا ہو اور اس کو یہ سوچ بھی ہلکان کررہا ہو کہ جس دولت کو میں نے ایک ایک پائی جوڑ کر جمع کیا ہے اور ابھی انجوائے بھی نہیں کیا ، اس کو ساتھ لے کرکیسے جاؤں تو یقین جانیں اس کے مرنے کی تکلیف مزید شدت اختیار کرجائے گی۔

میانہ روی، کامیابی کا راستہ 
 اعتدال اور میانہ روی ہی وہ صفت ہے جس کی بدولت انسان بہت ساری دنیاوی فوائد حاصل کرسکتا ہے ۔اعتدال میں رہنے والا انسان کبھی مفلسی کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ غیر ضروری فکروں میں مبتلا ہوتا ہے۔آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ میانہ روی نبوت کا پچیسواں جزو ہے۔ ‘‘(ابوداؤد،مسنداحمد)جبکہ ایک اور حدیث میں بطورِ تاکید کے تین بار فرمایا کہ تم درمیانی راہ اختیار کرو، درمیانی راہ اختیارکرو، درمیانی راہ اختیار کرو!(مسند امام احمد بن حنبل،مستدرک امام حاکم)یہ حکم فقط دنیاوی معاملات کے لیے نہیں ہے بلکہ عبادات میں بھی میانہ روی کا حکم ہے ۔آئیے جانتے ہیں کہ اہم اپنی زندگی میں میانہ روی اور کفایت شعاری کاکیسے مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔ 

خوراک
  خوراک میں کفایت شعاری یہ ہے کہ سادہ خوراک بالخصوص سبزیوں کا استعمال کیا جائے ۔مہنگی غذائوں اورفاسٹ فوڈز سے پرہیز کیا جائے کیونکہ ان پر جہاں زیادہ پیسے خرچ ہوتے ہیں وہیں یہ انسانی قوتِ مدافعت کو بھی کمزور کردیتے ہیں۔اسی طرح گھر میں جو کھانا بچ جائے اس کو پھینکنے کے بجائے کسی کو دے دینا چاہیے۔ایک ریسرچ کے مطابق، دنیا کا ایک تہائی کھانا استعمال ہونے سے پہلے پھینک دیا جاتا ہے۔،جو کہ تقریباً 2 ارب لوگوں کو کھلانے کے لیے کافی ہوسکتاہے۔

Paprika, Salad, Orange, FOOD

لہٰذاکھانے پینے کے معاملے میں میانہ روی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
 اکثر لوگ صرف بازار کے چٹخارے دار کھانے یا کولڈڈرنکس و آئس کریم کھانے بازار چلے جاتے ہیں۔یہ فقط زبان کے ذائقے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے یہ سب چیزیں گھر پرکم قیمت میں بنائی جاسکتی ہیں۔کھانے پینے کے لیے بازار جانے سے جہاں انسان کے بہت سارے پیسے خرچ ہوجاتے ہیں ،وہیں وبائی امراض میں بھی مبتلا ہونے کا خدشا ہوتا ہے۔

بجلی کا استعمال
 بجلی ایک قومی امانت ہے ،جس کی اس وقت ملک میں شدید ضرورت ہے ۔جب بھی آپ کو بجلی کی ضرورت نہ رہے تو فوراً لائٹ، پنکھا اور اے سی بندکردیاکریں،تاکہ آپ اسراف سے بچ سکیں ۔اسی طرح بلز کی ادائیگی بھی بروقت کریں،تاکہ قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے۔

پانی
 پانی بھی ایک قیمتی نعمت ہے جس کا ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ضیاع ہورہا ہے ۔واش بیسن میں منہ ہاتھ دھوتے وقت نلکا کم کھولیں،ہاتھوں کوصابن لگاتے وقت پانی بند کردیں او ر جب ہاتھ دھونے لگیں تو دوبارہ نکلا کھول دیں۔اسی طرح گھریلو خواتین بھی گھر میں پانی کے استعمال میں بھرپور احتیاط کریں۔

گاڑی کا استعمال
 انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ’’صحت‘‘ ہے۔بائیک اور گاڑی آجانے کے بعد اکثر لوگوں کی اب یہ عادت بن چکی ہے کہ چند قد م کا فاصلہ بھی اب گاڑی کے بغیر طے نہیں کرتے۔ قریبی مقام تک جانے کے لیے گاڑی کے بجائے پیدل یا سائیکل کااستعمال کریں۔اس سے جہا ںآپ کی جسمانی ورزش ہوگی وہیں ماحول بھی فضائی آلودگی سے بچ سکے گا۔

مہنگی خریداری
 بعض والدین بچوں کی معمولی ضد پر ان کے لیے اتنے مہنگے کھلونے خریدلیتے ہیں جس کی رقم سے کسی غریب کے گھردوچار دِنوں کا راشن آسکتا ہے ۔موجودہ حالات میں ایسی خریداری سے گریز کریں،اور اللہ نے جو بھی توفیق دی ہے اس کے مطابق مستحق افراد کی مدد کریں۔اسی طرح بعض لوگ صرف دکھاوے اوردوسروں میں اچھا لگنے کے لیے مہنگے کپڑے،موبائل اورگھڑیاں خریدلے لیتے ہیں،جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔دِکھاوے کی طلب چھوڑدیں ،کیونکہ انسان کچھ بھی کرلے لیکن وہ لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکتا۔لہٰذا بلا ضرورت کے خرچوں سے خود کو بچائیں ۔

Shopping, Business, Retail

چیز وں کا استعمال
 جو چیز جہاں تک مناسب استعمال چل سکتی ہو،اسے چلائیں۔ بعض لوگو ں کو ہردو تین ہفتے بعد نئے موبائل خریدنے کی عادت ہوتی ہے۔جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ پرانا سستے داموں بیچتے ہیں اور نیا مہنگے داموں خریدتے ہیں اورصرف ایک شوق کی خاطراپنی محنت کے بہت سارے پیسے ضائع کردیتے ہیں۔

زائد اشیاء
 ذاتی اور گھریلو زائداشیاء، جیسے کہ کپڑے،جوتے، فرنیچر وغیرہ گھر میں رکھنے یا ضائع کرنے کے بجائے مستحق شخص کو دے دیں، کیونکہ اس وقت ہرشخص بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور ہوسکتا ہے کہ کسی کوان چیزوں کی اشد ضرورت ہو۔

زائد رقم
  اگر آپ کو اللہ نے معاشی فراخی دی ہے تو اپنے پاس موجود زائد رقم کسی کو بطورِقرض دے دیں یا کسی کا چھوٹا موٹا روزگار شروع کرانے میں اس کی مدد کردیں۔

سادگی اپنائیں
 موجودہ حالات میں شادیاں،سادگی سے ہورہی ہیں۔سادگی کی اس روایت کو ہمیں ہمیشہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

خرچ میں میانہ روی
خرچ میں اعتدال سے انسان کی زندگی پُرسکون اور پریشانیاں کم ہوجاتی ہیں۔جبکہ اسراف کرنے والے لوگ محتاج ہوجاتے ہیں۔

اعتمادکرنے میں میانہ روی
کسی پر اندھا اعتماد،خسارے کاسودا ہے۔جبکہ کسی پر بھی اعتماد نہ کرنا،زندگی کو دشوار کردیتاہے۔

شوق پالنے میں میانہ روی
اپنے شوق کے ساتھ محبت ضروری ہے مگر اتنی نہیں کہ ضروریاتِ زندگی چھوڑ دیے جائیں۔

عبادت میں میانہ روی
عبادت میں محو ہوکر دنیا داری چھوڑدینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

کھانے میں میانہ روی
جو لوگ گزرچکے،جو موجود ہیں اور جو آنے والے ہیں ان سب کی بیماریوں کا سبب زیادہ کھانا ہے۔

گفتگومیں میانہ روی
کثرتِ کلام کی وجہ سے انسان سے بے شمارگناہ سرزدہوجاتے ہیں ۔

تربیت میںمیانہ روی
بچوں کی تربیت ضروری ہے مگر ان پر مسلط نہ ہوا جائے۔

بچت کیسے کریں؟
٭ہر مہینے کی ابتداء پر کچھ منٹ کے لیے بیٹھ کر اس ماہ کا ایک بجٹ بنائیںجس میں آپ کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن رکھا گیا ہواور پھر اسی کے مطابق اپنے اخراجات چلائیں۔

Money, Bills, Calculator, Save, Savings

٭پیسے خرچ کرنے میں مستقل مزاجی کے ساتھ احتیاط کریں۔اگر آپ بلاضرورت خریداری سے روزانہ کے 100روپے بھی بچاپاتے ہیں تو مہینے بعدآپ کے پاس 3ہزار روپے کی بچت ہوگی۔
٭اپنی ضروریات و خواہشات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی شاپنگ کریں۔بلاسوچے سمجھے خریداری شاید وقتی خوشی تو دے دیتی ہے مگر آپ کو انتہائی اہم وسیلے سے محروم کردیتی ہے۔
Save, Piggy Bank, Teamwork, Together, saving
ایسے سوشل سرکل سے پرہیز کریں جہاں ہر وقت مہنگی چیزوںاور فضول خرچی کے بارے میں بات چیت ہوتی ہو،ورنہ یہ صحبت آپ کو ہر وقت پیسے خرچ کرنے پر مجبور کرتی رہے گی۔اسی طرح ایسی ویب سائٹس اور ایپس جہاں آن لائن شاپنگ ہوتی ہو،کو بلاضرورت وزٹ کرنے سے گریز کریں۔
٭ہمیشہ ایک مخصوص رقم اپنے پاس رکھیں چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو، تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں کام آسکے۔
 اعتدال و میانہ روی کا راستہ حقیقی کامیابی کا راستہ ہے۔جس کو اپنانے کی ہمیں اس وقت شدید ضرورت ہے اور اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنے دِل و دماغ سے حرص و لالچ کو ختم کردیا جائے اور مندرجہ بالا طریقوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا شروع کردیا جائے تو یقینا ہم ایک کفایت شعار اور کامیاب قوم بن کر سرخرو ہوسکیں گے۔

Post a Comment

0 Comments