زندگی کی پانچ گیندیں
ہانپتے کاپنتے وہ آفس کے گیٹ پر پہنچا،ایک لمحے کے لیے رُک کر اس نے گھڑی پر نظر دوڑائی ۔آج پھر 15منٹ لیٹ۔۔۔وہ خود کو کوستے ہوئے بولا۔ٹائی کوٹ درست کرکے وہ اندر داخل ہوا اور منیجر کی نظروں سے بچتے ہوئے اپنے ڈیسک پر آکر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا۔فون منیجر کا تھا اورجنید آنے والے لمحات میں منیجر کی سنائی جانے والی باتوں کا سوچ کر خود کو کٹہرے میں کھڑا ایسا مجرم تصور کررہا تھا جس کی ہر دلیل مسترد کردی گئی ہو،وہ ناگواری کی حالت میں اٹھا اور۔۔۔ جب کچھ دیر بعد واپس آیاتواس کاموڈ بالکل ہی خراب ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
’’سر !آ پ کب تک یہاں ہوں گے ۔‘‘آفس بوائے نے پوچھاجو چھٹی ہوجانے کے بعدتین چکر لگاتھا مگر جنید ابھی تک بیٹھا گہرے سوچوں میں ڈوبا تھا۔’’ہاں ! بس اٹھنے والا ہوں ۔‘‘ جنید نے جواب دیا اور کمپیوٹر بند کرکے آفس سے نکلااورپارکنگ ایریاکی طرف آیامگریہ دیکھ کر اس کی طبیعت مزید بگڑگئی کہ بائک کا پچھلا ٹائر ہوا سے خالی تھا۔’’اوہ شٹ! ‘‘اس نے غصے میں اپنی بائک کولات ماری اور باہر روڈ کی طرف نکل آیا۔
آج صبح ہی سے اس کا دِن خراب چل رہا تھا ۔چلتے چلتے وہ خیالات کے بہاؤ میں تیرنے لگا۔اس کو اپنی بیوی صندل کی باتیں اور اس کا طنز بھرا وہ رویہ یاد آرہا تھا جو اس نے کل جنید کے ساتھ اپنایا تھا۔صندل کی چھوٹی بہن کی منگنی تھی اور اس کی شاپنگ کرنے کے لیے اس نے جنید سے کہاتھا، جنید نے ہامی تو بھرلی تھی لیکن پھر آفس میں ایک پراجیکٹ آیا اور جنید نے سوچا کہ شاپنگ دو چار دِن بعد بھی ہوسکتی ہے ،البتہ یہ پراجیکٹ وقت پر مکمل کرنے کی صورت میں اس کو آفس سے وہ مراعات مل سکتی تھیں جن کے لیے اس نے درخواست دی تھی ۔اس وجہ سے وہ رات گیارہ بجے گھر پہنچا جہاں صندل غصے سے بپھری ہوئی اس کی منتطر تھی ۔دونوں میں خوب تکرار ہوئی اور جنید کھانا کھائے بغیر ہی سوگیا۔رات میں کسی وقت اس کی آنکھ کھلی اور پھر نینداس سے کوسوں دور چلی گئی ، صبح تک وہ فقط کروٹیں ہی بدلتا رہا۔اگلی صبح وہ بھرپور کوشش کے باوجود بھی 15 منٹ لیٹ آفس پہنچا۔
گھر اور آفس کے کاموں اور ان تمام ناخو ش گوار واقعات نے اس کو ذہنی طورپر مفلوج کردیا تھا ۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کئی ہفتوں کامریض ہو ۔انہی خیالات میں سرگرداں وہ آہستہ آہستہ مین چوک کی طرف بڑھ رہا تھا۔اندھیرا پھیل چکا تھا۔ اچانک ایک گاڑی اس کے قریب آکر رُکی ۔جنید نے دیکھا تو گاڑی میں ایک شخص بیٹھا مسکرارہا تھا اور اگلا دروازہ کھول کر جنید کو بیٹھنے کی دعوت دے چکا تھا۔اس نے موقع غنیمت جانااور گاڑی میں بیٹھ گیا۔’’کہاں جارہے ہو بھائی؟ ‘‘ ’’گاڑی میں بیٹھے شخص نے پوچھا‘‘سر! میں نے الیاس ٹاؤن جانا ہے۔’’جنید نے جواب دیا۔’’مہربان شخص نے سر ہلایا اور کچھ لمحوں کے لیے جنید کی طرف بغور دیکھا اور پھر پوچھا۔’’بھائی کچھ اداس لگ رہے ہو؟‘‘’’ ہا ں جی بس کچھ مصروفیات بڑھ گئی ہیں۔‘‘جنید نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا۔’’ مگر آپ کی آنکھوں سے لگ رہا ہے کہ آپ کسی بڑی پریشانی میں ہیں۔کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے شیئر کریں شاید میں کچھ مدد کرسکوں۔‘‘مہربان شخص مسکراکر بولاتو جنید نے کچھ دیر سوچااور پھر ساری تفصیل انہیں بتادی۔جس پروہ بولے :’’میں سمجھ گیا ہوں دراصل آپ کی زندگی میں Work life balanceکا شدید فقدان ہے ،جس کی وجہ سے یہ تمام مسائل بنے ہیں۔دیکھیں بھائی! انسان کی زندگی میں پانچ چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔کام ، فیملی ،صحت،دوست احباب اور عبادت۔ان سب کو برابری کے ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جوکرایک ہی وقت میں اپنے ہاتھوں میں پانچ گیندوں کو اچھا ل رہا ہوتا ہے ۔اس کی تمام گیندوں پر ایک جیسی توجہ ہوتی ہے اوراگر وہ کسی ایک گیند کو ترجیح دے کر باقیوں کو نظر انداز کردے تو سب اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائیں گی اور اس کا سارا کھیل بگڑ جائے گا۔
ہر انسان کوبھی اپنی زندگی میں پانچ گیندوں سے کھیلنا پڑتا ہے مگر ہماری گیندیں جوکر کی گیندوں سے مختلف ہیں۔اس میں ’’کام‘‘ والی گیند کے علاوہ باقی سب کانچ کی ہیں ، جواگر ایک دفعہ ہاتھ سے چھوٹ گئیں توکرچی کرچی ہوجائیں گی جبکہ کام والی گیند کی مثال ٹینس بال کی طرح ہے جواگر ہاتھ سے گر بھی جائے تو اچھل کر واپس آسکتی ہے۔فیملی ، صحت ، دوست اور عبادات بہت اہم چیزیں ہیں ۔یہ ایک دفعہ کھوگئیں تو دوبارہ نہیں مل سکتیں،جبکہ ذریعہ معاش یا روزگار اگر کہیں ختم بھی ہوجائے تو فکر کی بات نہیں۔صحت اور تندرستی ہو تو کام اور نوکری دوبار ہ بھی مل سکتی ہے۔
بھائی !کام ہمیشہ ایک پروفیشن اور ماہر کی طرح کریں مگرزندگی جینے کے لیے آپ کو ایک بھرپور انسان بننا ہوگا،اور پھر پور انسان وہی ہوتا ہے جو ان تمام چیزوں کو ایک جتنا وقت اور توجہ دیےتب ہی وہ زندگی کی پانچ گیندوں کے ساتھ کھیل سکے گا۔امید ہے آپ کو بات سمجھ آگئی ہوگی ؟
جنید انہماک کے ساتھ ان کی باتیں سنتے ہوئے ان میں مکمل طورپر کھوگیا تھا ۔وہ جیسے خواب سے جاگا۔ہوش میں آتے ہی وہ بولا: ’’جی جی بالکل !میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔میں نے کبھی اس بارے میں غور ہی نہیں کیا تھا۔‘‘جنید نے ایک آہ بھر کر سیٹ سے ٹکالیا ،اس کاچہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ،اس نے سوچا :’’جیسے ہی وہ سٹاپ پر اترے گا تو فلاور شاپ سے صندل کے لیے اس کے پسندیدہ چنبیلی کے پھول ضرور لے کر جائے گا۔‘‘مسکراتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کا گھر قریب آچکاتھا۔’’بس سر!مجھے یہیں اتاردیں۔‘‘گاڑی رُک گئی،جنید نے مہربان شخص کا بھرپورشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:’’سرآپ نے میری اتنی بڑی مشکل حل کردی ،میں آپ کا بہت شکرگذارہوں‘‘جبکہ وہ جواب میں صرف مسکرادیے ، انہوں نے ڈیش بورڈ سے ایک کتاب نکال کر جنید کو دیتے ہوئے کہا:’’مطالعہ کی عادت بنائیں۔آپ کی بہت ساری پریشانیاں حل ہوجائیں گی ‘‘یہ کہہ کرانہوں نے گاڑی آگے بڑھادی۔
جنید نے چلتے چلتے کتاب پر نظر دوڑائی ،خوبصورت نیلگوں ٹائٹل پر دلکش انداز میں ’’اونچی اُڑان‘‘ لکھا ہوا تھا ۔جنید نے کتاب کی پچھلی جانب دیکھا تو ا س کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔’’یہ چہرہ۔۔یہ تو جاناپہچانا ہے ،اوہ ۔۔ میں اپنی پریشانی میں انہیں پہچان ہی نہ سکا‘‘اُس کو افسوس ہوا مگر اس کے ساتھ دو بڑے سرپرائز ملنے پر وہ بے حد خوش بھی تھا ۔وہ زیرلب بولا:
’’ایک دفعہ پھر بہت بہت شکریہ سرقاسم علی شاہ‘‘
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment