2۔ مردوں کے لیے اعتکاف کے مسائل
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کو سنت اعتکاف کہا جاتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار، مسائل اعتکاف)
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کی شرعی حیثیت:
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت ِمؤکدہ ہے، البتہ حضراتِ فقہاءکرام نے اس کو سنت علی الکفایہ قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویسے تو ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اس فضیلت اور ثواب کے کام کو سرانجام دے لیکن اگر کسی مسجد میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کی جانب سے سنت ادا ہوجاتی ہے،لیکن اگر کوئی بھی شخص اعتکاف کے لیے نہ بیٹھے تو سب پرسنت چھوڑنے کا وبال ہوگا۔اس لیے مساجد کی انتظامیہ اور اہلِ محلہ اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ مسجد میں کوئی نہ کوئی اعتکاف کرنے والا ضرور ہونا چاہیے۔
(صحیح البخاری رقم: 2026 مع اعلاءالسنن، احکامِ اعتکاف، امداد الاحکام، رد المحتار علی الدر المختار،مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
رمضان کا سنت اعتکاف کتنے دن کا ہوتا ہے؟
رمضان کا سنت اعتکاف پورے آخری عشرے کا ہوتا ہے، اس لیے جو حضرات عشرے سے کم کے اعتکاف کے لیے بیٹھنا چاہیں تو ان کا اعتکاف نفل کہلاتا ہے اور اس پر نفل اعتکاف ہی کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،فتاویٰ محمودیہ)
نوٹ: جولوگ کسی وجہ سے پورے عشرے کا اعتکاف نہیں کرسکتے تو ان کو جتنے دن کا موقع مل رہا ہو تو وہ اتنے ہی دن نفلی اعتکاف کے لیے بیٹھ جائیں، کیوں کہ اس کی بھی بڑی فضیلت ہے۔اسی طرح وہ حضرات جو دن کو کام کاج کی وجہ سے اعتکاف میں نہیں بیٹھ سکتے تو وہ رات کو ہی نفلی اعتکاف کرلیا کریں، اسی طرح چھٹی کے دنوں میں بھی اس نفلی اعتکاف کی فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف)
کون اعتکاف کے لیے بیٹھ سکتا ہے؟
1: ہروہ مسلمان جو عاقل ہو وہ اعتکاف کے لیے بیٹھ سکتا ہے ، چاہے مرد ہو یا عورت۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، مراقی الفلاح، رد المحتار علی الدر المختار،مسائل اعتکاف)
2: اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے بالغ ہونا شرط نہیں ہے، اس لیے نابالغ لڑکا اگر سمجھ دار ہو تو وہ بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،مراقی الفلاح، رد المحتار علی الدر المختار،مسائل اعتکاف، فتاوی محمودیہ)
سنت اعتکاف کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتاہے؟
1: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف 21 رمضان کی رات سے شروع ہوتا ہے، اور جب عید کا چاندنظر آجائے تو یہ اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
2: اعتکاف کے لیے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ 20 رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد آجائے تاکہ جب سورج غروب ہونے لگے تو یہ اعتکاف کی حالت میں ہو، اور جب عید کا چاند نظر آجائے تو یہ اعتکاف ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعدمسجد سے نکل سکتا ہے۔یاد رہے کہ جو شخص 20 رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کے لیے نہیں بیٹھابلکہ سورج غروب ہوجانے کے بعد بیٹھا تو اس کا اعتکاف سنت نہیں کہلائے گا، اب اگر اس کے باوجود بھی وہ بیٹھنا چاہے تو اس کا اعتکاف نفلی شمار ہوگا اور اس پر نفلی اعتکاف ہی کے احکام جاری ہوں گے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ رقم:9741، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،مسائلِ اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
اعتکاف کے لیے نیت کے احکام:
1: اعتکاف کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے کہ دل میں نیت کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرتا ہوں۔ دل میں نیت کافی ہے، البتہ زبان سے بھی یہ الفاظ ادا کرنا درست ہے لیکن ضروری نہیں۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، رد المحتار علی الدر المختار، مسائلِ اعتکاف)
2: سنت اعتکاف کی یہ نیت 20 رمضان کا سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کرنی ضروری ہے، اس لیے جس شخص نے مسجد آنے کے بعد بھی نیت نہیں کی حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا تو اب اس کے بعداس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں ۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام،مسائلِ اعتکاف)
اعتکاف کون سی جگہ درست ہے؟
1: اعتکاف صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجدہی میں ہو،یہی وجہ ہے کہ مسجدکے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف کرنا درست نہیں۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، امداد الاحکام،رد المحتار علی الدر المختار،مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
2: اعتکاف کے لیے سب سے افضل جگہ مسجد حرام ہے، پھر مسجد نبوی، پھر مسجد اقصی، پھر اس کے بعد کسی بھی جامع مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے، اور جامع مسجد میں اعتکاف کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز کے لیے باہر جانا نہیں پڑتا ۔ ویسے تو اعتکاف ہر اس مسجد میں بھی جائز ہے جس میں صرف پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہو اور جمعہ نہ ہوتا ہو، البتہ جس مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا نہیں کی جاتی وہاں اعتکاف جائز تو ہے لیکن افضل نہیں ، البتہ اگر کسی کو جامع مسجد اور پنج وقتہ نماز والی مسجد میسر نہ ہو تو وہ ایسی مسجد ہی میں اعتکاف کو غنیمت جانے ۔
(سنن ابی داؤد رقم: 2475 ، مصنف عبد الرزاق رقم: 8009، احکامِ اعتکاف، رد المحتار ، مسائل اعتکاف، فتاوی ٰمحمودیہ، احسن الفتاویٰ)
مسجد کی شرعی حدود اور ان سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت
1: اعتکاف چونکہ مسجد میں ہوا کرتا ہے اس لیے معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد کی شرعی حدود سے واقفیت حاصل کرے، کیوں کہ اس سلسلے میں ذرا سی بھی کوتاہی اعتکاف کو فاسد کرسکتی ہے، اس لیے اعتکاف شروع کرنے سے پہلے مسجد کی انتظامیہ یا بانی سے مسجد کی شرعی حدود معلوم کرلینی چاہیے کہ کون کون سی جگہیں عینِ مسجد میں داخل ہیں اور کون کون سی جگہیں داخل نہیں۔
اہم گزارش: مساجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اعتکاف سے قبل ہی مسجد کی شرعی حدود کی تعیین اور نشاندہی کرلیں تاکہ اس معاملے میں معتکفین کے لیے سہولت رہے۔
2: ویسے تو مسجد اس پورے احاطے کو کہا جاتا ہے جو مسجد کے لیے وقف ہوتا ہے لیکن اعتکاف کا تعلق صرف عینِ مسجد ہی کے ساتھ ہے۔ عین ِمسجد سے مراد وہ تمام جگہ ہے جس کو مسجد کے بانی نے خاص مسجد قرار دی ہو، جو نماز کے لیے مخصوص ہو، جس میں چپل پہن کر نہ چلا جاتا ہو اور جہاں جُنبی شخص کا داخلہ جائز نہ ہو؛ اعتکاف صرف اسی جگہ جائز ہے۔ مسجد کی ان حدود کے علاوہ جو جگہ مسجد کے احاطے میں تو ہو لیکن عینِ مسجد میں شامل نہ ہو تو وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا، جیسے وضو خانہ، غسل خانہ، مسجد کا گودام ، امام اور مؤذن کا کمرہ، جنازہ گاہ وغیرہ ؛ یہ جگہیں عمومًا عینِ مسجد سے خارج ہوا کرتی ہیں،البتہ ان میں سے اگر کسی جگہ سے متعلق مسجد کے بانی نے صراحت کی ہو کہ یہ جگہ عینِ مسجد میں شامل ہے تو اس صورت میں وہاں جانے سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
3: درجہ ذیل جگہیں عمومًا مسجد میں داخل ہوا کرتی ہیں:
(الف) مسجد کا محراب، اندرونی ہال، برآمدہ، صحن اور چھت، اسی طرح ہر وہ جگہ جس کو مسجد کے بانی نے عینِ مسجد قرار دی ہو تو وہ بھی مسجد ہی کا حصہ شمار ہوگی، معتکف کے لیے وہاں جانا جائز ہے،البتہ اگر ان میں سے کسی جگہ کو مسجد کے بانی نے عینِ مسجد سے خارج رکھا ہو تو ایسی صورت میں وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(ب) مسجد کی چھت چونکہ مسجد ہی کا حکم رکھتی ہے اس لیے اعتکاف کی حالت میں وہاں جانا جائز ہے، البتہ اگر چھت پر جانے کے لیے راستہ عینِ مسجد سے باہربنایا گیا ہو تو اس کے ذریعے چھت پر جانا جائز نہیں۔یہی حکم اس مسجد کا بھی ہے جو کئی منزلہ ہوکہ اگر اوپر جانے کا راستہ مسجد کی شرعی حدودکے اندر ہی ہو تو اوپر کی منزلوں میں جانا جائز ہے، اور اگر راستہ مسجد سے باہر ہو تو ایسی صورت میں وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(ج) معتکف کے لیے پوری مسجد اعتکاف کی جگہ ہے،اس لیے عینِ مسجد میں جس جگہ وہ جانا چاہے جاسکتا ہے، جس جگہ بھی اعتکاف کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھ سکتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، امداد الاحکام،مسائلِ اعتکاف، ردالمحتار،فتاویٰ محمودیہ)
معتکف کے لیے چادریں لگانے کا حکم:
1: معتکف اعتکاف کے لیے جس جگہ بیٹھنا چاہے وہاں اپنے اردگردچادریں لگاسکتا ہے، لیکن اگر کوئی چادر لگائے بغیر ہی اعتکاف کے لیے بیٹھ جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،مسائلِ اعتکاف)
2: معتکف نے اپنے لیے جو جگہ مخصوص کی ہو تو اگر وہ اس سے ہٹ کرمسجد کی شرعی حدود میں کسی اور جگہ آرام کرنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (اعتکاف کے فضائل و احکام،فتاویٰ محمودیہ)
سنت اعتکاف کے لیے روزے کی شرط:
سنت اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، روزے کے بغیر اعتکاف درست نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اگر اعتکافکے دوران معتکف نے کسی بھی وجہ سے روزہ نہیں رکھا یا اس کا روزہ کسی بھی وجہ سے ٹوٹ گیا تو اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔
(سنن ابی داؤد رقم: 2475، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر المختار،آپ کے مسائل اور ان کاحل، فتاویٰ عثمانی)
کن چیزوں سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا؟
1: معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کے ایام میں مسجدکی شرعی حدود ہی میں رہے ، کسی شرعی عذرکے بغیر مسجد سے نہ نکلے۔معتکف اگر کسی عذر کے بغیر مسجد سے نکل جائے چاہے بھول کر ہو یا جان بوجھ کر تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ، البتہ اگر اعتکاف بھول کر یا غلطی سے ٹوٹ جائے تو اس کا گناہ نہیں ہوتا۔
(سنن ابی داؤد رقم: 2475، احکامِ اعتکاف، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، رد المحتار علی الدر المختار،مسائلِ اعتکاف)
2: مسجد سے نکلنا اس وقت کہلائے گا جب دونوں پاؤں مسجد سے اس طرح باہر نکل جائیں کہ اسے عرف میں مسجد سے نکلنا کہا جا سکے ۔ اس لیے معتکف مسجد میں رہتے ہوئے صرف سر ،یا ہاتھ، یا ایک پاؤں، یا بیٹھ کر یا لیٹ کر صرف دونوں پاؤں باہر نکال دے تو اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔(صحیح البخاری رقم: 2028، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، فتاوی ٰمحمودیہ)
3: معتکف قضائے حاجت اور پیشاب کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے ،لیکن اگر فراغت کے بعد تھوڑی دیر بھی وہاں ٹھہرگیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا،البتہ اگر وضو کرنا چاہے تو وضو کے لیے ٹھہر سکتا ہے، لیکن فراغت کے بعد فورًامسجد لوٹ آنا ضروری ہے۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر المختار، مراقی الفلاح، مسائلِ اعتکاف)
4: معتکف اگر قضائے حاجت کے لیے نکلے اور وہاں جاکر معلوم ہوکہ بیت الخلا مصروف ہے تو وہ وہاں انتظار بھی کرسکتا ہے۔
(احسن الفتاویٰ، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف)
5: معتکف کے لیے اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے مسجد کے بیت الخلاکا استعمال سخت دشوار ہو تو وہ قضائے حاجت کے لیے گھر بھی جاسکتا ہے۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر المختار، فتاویٰ محمودیہ)
6: معتکف کو وضو کی ضرورت ہو اور مسجد کی شرعی حدود میں وضو کرنے کا انتظام بھی ہو تو ایسی صورت میں وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ، البتہ اگر وضو کا انتظام نہ ہو تو وضو کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے، اسی طرح اگر وضو خانے میں رش ہو تو وہاں انتظار بھی کرسکتا ہے، البتہ وضو سے فارغ ہوتے ہی فورًامسجد لوٹ آنا ضروری ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،مسائلِ اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ، احسن الفتاویٰ)
7: معتکف کو ہرنمازکے لیے خواہ وہ فرض ہو،واجب ہو،سنت ہو، نفل ہو،قضا نمازاداکرنی ہو،تلاوت کرنی ہو، یا سجدہ تلاوت اداکرنا ہو؛ ان سب کے لیے جس وقت بھی چاہے وضو کرنے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز ہے اگر مسجد میں وضو کا انتظام نہ ہو۔البتہ اگر معتکف پہلے سے با وضو ہو تو اسے دوبارہ وضوکرنے کے لیے مسجد سے نکلنا درست نہیں، لیکن اگر عینِ مسجد ہی میں وضو کا انتظام ہو تو با وضو ہوتے ہوئے بھی دوبارہ وضو کرسکتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، مسائل ِاعتکاف، احسن الفتاویٰ)
8: ضرورت ہو تو معتکف مسجد میں ریح یعنی ہوا بھی خارج کرسکتا ہے۔(احکامِ اعتکاف،اعتکاف کے فضائل و احکام، احسن الفتاویٰ)
9: معتکف کو اگر احتلام ہوجائے تو مناسب یہ ہے کہ فورًا مسجد سے نکل جائے اور غسل کرکے فورًامسجد لوٹ آئے۔ مسجد سے نکلنے کے لیے کوئی خاص طریقہ نہیں بلکہ جیسے بھی ہو مسجد سے نکلنا درست ہے، لیکن اگر فورًا مسجد سے نکلنے کایا غسل کرنے کا موقع نہ ہو توتیمم کرکے مسجد ہی میں رہے، پھر جب موقع ملے تو جاکر غسل کرکے مسجد لوٹ آئے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام،رد المحتار علی الدر المختار،مسائلِ اعتکاف)
10: اعتکاف کی حالت میں کلی کرنے، مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کرنے اور سر دھونےکے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ، اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر چلا جائے چاہے بھول کر ہو ، غلطی سے ہو یا جان بوجھ کر ہو تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے ان کاموں کی اگر ضرورت پڑرہی ہو تو مسجد ہی میں ان کے لیے ایسامناسب انتظام کرلیا جائے کہ ان کے لیے مسجد سے باہر جانا بھی نہ پڑے اور پانی بھی مسجد میں نہ گرے۔اسی طرح ہاتھ دھونے اور برتن دھونے کے لیے مسجد ہی میں مناسب انتظام کرلینا چاہیے۔ (مسائلِ اعتکاف ، اعتکاف کے فضائل و احکام)
11: معتکف جب وضوکے لیے جائے تو وضو کے دوران، مسواک اور ٹوتھ پیسٹ بھی کرسکتا ہے،صابن بھی استعمال کر سکتا ہے،بس کوشش کرے کہ ان اضافی کاموں میں وقت زیادہ خرچ نہ ہو۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، احسن الفتاویٰ)
12: اعتکاف کی حالت میں کنگھی کرنا، ناخن اور بال کاٹنا بھی جائز ہے البتہ اس بات کا خیال رکھے کہ ناخن اور بال مسجد میں نہ گرنے پائیں۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف)
13: معتکف جب وضو یاقضائے حاجت کی ضرورت کے لیے مسجد سے نکلے تو آتے جاتے چلتے چلتے تو کسی کے ساتھ بات چیت، دعاسلام کرسکتا ہے، لیکن اگر وہ ان کاموں کے لیے تھوڑی دیر بھی ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(سنن ابی داؤد رقم: 2474، اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، امداد الاحکام، فتاویٰ محمودیہ)
14: معتکف کے بدن یاجسم پر اگر کوئی نجاست لگ جائے اور مسجد میں اس کو دھونے کا کوئی انتظام نہ ہویا مسجد میں اس کو دھونا مشکل ہو تو اس ناپاکی کو دور کرنے کے لیے مسجد سے نکل سکتا ہے۔(مسائل ِ اعتکاف، اعتکاف کے فضائل و احکام)
15: معتکف کوپیشاب کے قطرے کا مرض ہوجس کی وجہ سے اس کو استنجا کی ضرورت پیش آرہی ہو تو وہ استنجا کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔ (مسائلِ اعتکاف، اعتکاف کے فضائل و احکام)
16: اگر کوئی اس قدر بیمار ہوا کہ اس کو روزہ توڑنے کی نوبت پیش آئی تو روزہ توڑنے سے اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،رد المحتار علی الدر المختار)
17: اعتکاف کی حالت میں مسجد میں کھانا پیناجائز ہے، البتہ اس کے لیے مناسب انتظام ہونا چاہیے تاکہ مسجد کی صفائی بھی متاثر نہ ہو اور دوسروں کو تکلیف بھی نہ ہو۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،رد المحتار علی الدر المختار، مسائل اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
18: معتکف کو کھانے پینے کی حاجت ہو اور کوئی لانے والا نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ خود جاکر بھی لاسکتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار، فتاویٰ محمودیہ)
19: اعتکاف کی حالت میں صرف غسلِ جنابت کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے،اس کے علاوہ جو غسل صفائی یا ٹھنڈک کے لیے ہو یا جمعہ کا مسنون غسل ہو تو اس کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، امداد الاحکام، فتاویٰ عثمانی)
20: اگر کوئی شخص صفائی یا ٹھنڈک کے لیے غسل کرنا چاہے تو اس کے لیے مسجد ہی میں ایسا انتظام کرلے کہ پانی مسجد کے فرش پر نہ گرے،جیسے کسی ایسے ٹب یا بڑے برتن کا انتظام کرلیا جائے جس میں مناسب پردے کے ساتھ غسل کیا جاسکتا ہو۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف، رد المحتار علی الدر المختار، مسائلِ اعتکاف، فتاویٰ محمودیہ)
دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں کسی مناسب جگہ عارضی غسل خانہ بنایا جائے، جو صرف غسل کے لیے ہواور اس کا پانی مسجد کے فرش پر نہ گرے۔عارضی غسل خانہ بنانے کے لیے مستند اہل علم کی زیرنگرانی مناسب کوشش کرنی چاہیے۔
اگر مسجد میں ایسا کوئی انتظام نہ ہوسکتا ہو اور معتکف کو گرمی یا کسی اور وجہ سے نہانے کی شدید حاجت ہورہی ہوتو ایسی شدید مجبوری میں بعض اہلِ علم نے اتنی اجازت دی ہے کہ جب قضائے حاجت کے لیے جائے تو ساتھ میں جلدی سے غسل بھی کرتا آئے، اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا، البتہ کوشش یہ ہو کہ اس اجازت پر شدید مجبوری ہی میں عمل کیا جائے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، آپ کے مسائل اور ان کا حل، فتاوی ٰمحمودیہ، فتاوی ٰدارالعلوم زکریا)
21: بہتر یہ ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں کرے جہاں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہو، لیکن اگر کوئی شخص ایسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھے جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو تو وہ جمعہ کی نماز کے لیے دوسری مسجد جاسکتا ہے۔ جمعہ کے لیے جاتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں مسجد سے نکلے جب اس کو اندازہ ہو کہ جامع مسجد پہنچ کر چار رکعات سنت اداکرکے اس کے بعد خطبہ شروع ہوسکے۔جمعہ کی فرض نماز ادا کرنے کے بعدچاہے تو سنتیں بھی وہاں ادا کرسکتا ہے۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، رد المحتار علی الدر المختار،مسائلِ اعتکاف)
22: کوئی شخص جمعہ کے لیے کسی جامع مسجد گیا اور پھرواپس نہ آیا بلکہ وہیں اعتکاف کے لیے ٹھہرگیا تواعتکاف تو صحیح ہوجائے گا لیکن ایسا کرنا مناسب نہیں۔
(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، رد المحتار علی الدر المختار،مسائلِ اعتکاف)
23: اگر کوئی مؤذن اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو اور اذان کی جگہ مسجد کی شرعی حدود سے باہر ہو تو اذان دینے کے لیے مسجدکی شرعی حدودسے باہر نکلنا جائز ہے، مگر اذان کے بعد فورًا مسجد لوٹ آئے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص باقاعدہ مؤذن تو نہیں لیکن کسی وقت اذان دینے کے لیے اسے مسجدکی شرعی حدود سے باہر نکلنا پڑے تو اذان کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہے۔(اعتکاف کے فضائل و احکام، احکامِ اعتکاف،رد المحتار علی الدر المختار، مسائلِ اعتکاف)
اعتکاف سے متعلق چند اہم باتیں
1: معتکف مسجد میں دنیوی باتیں کرسکتا ہے البتہ مسجد کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے فضول گپ شپ سے اجتناب کرے۔ اسی طرح گپ شپ کی محفلیں لگانا بھی اعتکاف کی روح اور مسجد کے تقدس کے خلاف ہے۔
2: معتکف مناسب طریقے سے موبائل فون استعمال کرسکتا ہے البتہ یہ چیزیں ضرورت کی حد تک رکھے، موبائل کا بے جا استعمال مسجد کے احترام اور اعتکاف کی روح کے خلاف ہے۔
3: معتکف کو چاہیے کہ اپنے اوقات زیادہ سے زیادہ قیمتی بناتے ہوئے تلاوت، ذکر، نفلی عبادات اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرے، مستند دینی کتب کا مطالعہ کرے، دین کی ضروری باتیں سیکھنے کی بھرپور کوشش کرے، اگر کسی کے ذمے قضا نمازیں یا سجدہ تلاوت ہوں تو ان کی ادائیگی کی فکر کرے؛ غرض اعتکاف کے ایام میں اللہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی کے اعمال خوب سے خوب سرانجام دے تاکہ اعتکاف کا مقصد پورا ہوسکے۔
پارٹ 3 کے لیے اس لنک پر کلک کرے
https://urdufactsoflife.blogspot.com/2020/05/sunat-aitakaf-aur-ahkampart-3-khawateen.html
پارٹ 3 کے لیے اس لنک پر کلک کرے
https://urdufactsoflife.blogspot.com/2020/05/sunat-aitakaf-aur-ahkampart-3-khawateen.html
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment