زاعفر جن
زاعفر جن سے شاید اکثریت واقفیت نہ رکھتی ہو ، اس کی حقیقت تک پہنچنے کی خاطر بیر علم جنگ کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے جو مولا امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے ایک کنویں کے اندر لڑی ، اور چوبیس ہزار جنات کے قبیلے کو مسلمان کیا ۔
جس کنویں میں اصحاب ڈول پھینکتے تھے اور جنات ڈول پانی کا کاٹ دیتے تھے ، مختصر یہ کہ مولا علیہ السلام جب گئے تو سرکار نے ڈول پھینک کر جنات کو متنبہ کیا کہ یہ ڈول علی ابن ابی طالب پھینک رہے ہیں چنانچہ شرارت سے باز آ جائیں ، مگر جنات اپنی حرکت سے باز نہ آئے اور انہوں نے مولا علی علیہ السلام کا پھینکا ڈول کاٹ دیا ، بعد از تنبیہ جب جنات نے شرارت کی تو مولا علی علیہ السلام نے ذوالفقار کو بے نیام کر کے کنویں میں چھلانگ لگا دی ، اس جنگ میں لاتعداد جنات مولا کی تلوار سے ہلاک ہوئے ، مغلوب جنات کو کلمہ پڑھانے کے بعد مولا علی نے جنات کی بیوہ سردار کی پریشانی کو یوں ختم کیا کہ اسی جنگ میں جو جنات کا سردار مولا علی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا گیا تھا اسی کے چھوٹے بیٹے کو سرداری کا تاج پہنا کر مولا جنات کو کلمہ پڑھانے کے بعد واپس حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں پہنچے،
جس بچے کو سرکار نے چھوٹی عمر میں باپ کے قتل کرنے کے بعد سردار بنایا تھا اس کا نام زاعفر جن تھا۔ جس کی شادی 10 محرم سن 61 ہجری کو تھی ، اس کی شادی میں جانے والے اس کے باراتی جب کربلا کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دیکھا کہ ہر طرف مارو مارو کی آوازیں آ رہی ہیں جب نیچے اتر کر دیکھا تو حیران و پریشان ہو گئے کہ ان کے آقا حضرت امام حسین علیہ السلام کو یزیدی لشکر نے گھیرا ہوا ہے اور امام عالی مقام زخموں سے چور ہیں ۔ وہ باراتی اپنے سروں میں مٹی ڈال کر فوراً اپنے سردار زاعفر جن کے پاس پہنچے اور کہا اے سردار آپ یہاں خوشیاں منا رہے ہیں اور آپ کا سردار جناب بی بی فاطمتہ الزہراء سلام اللّٰہ علیہا کا لعل حضرت امام حسین علیہ السلام زخموں سے چور ہیں ۔۔۔۔ فوراً جناب زعفر اپنا سہرا زمین پر پھینکا اور اپنی جنات کی فوج لیکر کربلا کے مقام پر پہنچے ۔
جب زاعفر کربلا پہنچا تو اس وقت قاسم ابن حسن علیہ السلام پامال ہو چکے تھے ، علی اکبر شہید ہو چکے تھے ، عباس کے کے بازو قلم ہو گئے ، چھ ماہ کے علی اصغر قتل ہو گئے ، عون و محمد مارے گئے 😭
امام عالی مقام تنہا زخموں سے چور ہیں ۔ زعفر جن نے رو کر امام حسین علیہ السلام کے قدموں کو چوم کر کہا مولا تیرا غلام حاضر ہے مجھے اجازت دیں میں اپنی ساری فوج لے آیا ہوں ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: نہیں زعفر میں نے اپنے نانا محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کو جنات سے نہیں مروانا۔۔۔
زعفر جن روتے بھی رہے اور حسین ابن علی علیہ السلام کو قتل ہوتے دیکھتے رہے۔۔
واضع رہے کہ واقع کربلا کے بعد زاعفر جن نے کئی سو سال کی زندگی پائی ، اب مجھے ان علامہ کا نام نہیں یاد جن کے مکتب میں بچے قرآن مجید کی تعلیم پاتے تھے ، ان کو ایک جڑی بوٹی درکار تھی جس کی خاطر تگ و دو میں وہ پریشان تھے تو ان کے ایک شاگرد نے ان کو پریشان دیکھا تو پوچھا کہ قبلہ آپ پریشان کیوں ہیں انہوں نے کہا کہ اتنی دور ایک جڑی بوٹی ہے وہ چاہیے ، اس شاگرد نے کہا جی میں لا دیتا ہوں اور وہ بچہ وہ جڑی لے آیا ،
استاد نے حیران ہو کر بچے سے پوچھا آپ کون ہیں اور کیسے اتنی دور سے یہ بوٹی لے آئے ۔ کیونکہ جہاں یہ بوٹی ہے وہاں تک پہنچنے میں مہینے لگ جاتے ہیں اور منٹوں میں لے آیا ۔ سچ بتا کہ توں کون ہے۔ تو اس بچے نے بتایا کہ قبلہ میں جنات میں سے ہوں مجھے میرے دادا نے قرآن پاک کی تعلیم کے لیے یہاں بھیجا ہے ، ان حضرت نے اس کے دادا کا نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ زاعفر کا پوتا ہے ، ان حضرت نے زاعفر سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ،
شاگرد نے کہا قبلہ میرا دادا زاعفر جنگلوں ، بیابانوں میں رہتا ہے میری خود ملاقات کبھی کبھی ہوتی ہے ۔ میرے دادا کسی سے نہیں ملتے لیکن میں بات کروں گا۔
کچھ دنوں بعد اس بچے کی ملاقات اپنے دادا زاعفر سے ہوئی اور اپنے استاد کے بارے میں آگاہ کیا کہ دادا وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔
زاعفر جن اپنے پوتے کی بات کو ٹال سکے اور دن مقرر کیا کہ اپنے استاد کو کہنا کہ فلاں جگہہ پر مجھے مل لے۔
شاگرد نے اپنے استاد کو طے شدہ مقام پر لے آیا ۔
جب معلم نے زاعفر جن کو دیکھا سر میں مٹی آنکھوں سے خون اور کمر جھکی ہوئی ۔۔۔۔
زعفر جن کو کہا : اے زعفر مجھے مصائب حضرت امام حسین علیہ السلام بتا توں تو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔
یہ سننا تھا کہ زعفر جن کی چیخ نکلی اور ہائے حسین ہائے حسین کہتا ہوا غائب ہو گیا۔
علامہ سید نجم الحسن کراروی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب چودہ ستارے میں بحوالہ مناقب ابن شہر آشوب جلد 2 صفحہ 90 ، اور کنزالواعظین ملا صالح برغانی میں بحوالہ امام المحققین الحاج محمد تقی القردینی تحریر فرمانے ھیں ۔ کہ امام حسن عسکری (ع) کے توسط سے ابوسعید خدری و حزیفہ یمانی سے مرقوم ھے ۔
۔
شائقین مطالعہ واقعہ " جنگ بیر العلم " کیلیئے حوالہ ملاحظہ کیجیئے ۔
کتاب : الدمعتہ الساکبہ ۔
مولف : آقائے محمد باقر نجفی ۔
ترجمہ : علامہ اثیر جاڑوی مرحوم ۔
ناشر : ولی العصر ٹرسٹ (جھنگ)
اشاعت : 1992 عیسوی ۔
جلد : اول ، صفہہ : 429 ۔
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment