انجان محبت
دوسری قسط
گاڑی کے فرنٹ میر ر میں موجود آنکھوں نے میکس کو اپنے حصار میں لے لیا تھا
وہ ہپناٹائز ہو کر گاڑی کو غلط سمت میں چلانے لگا
جان جو کہ میوزک میں اس قدر مگن تھا کہ اسے ذرا بھی خبر نہ ہوئی۔
اور گاڑی برق رفتاری کے ساتھ ایک انجان منزل کی طرف دوڑے جا رہی تھی۔
جان کو تب ہوش آیا جب گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ ایک نسبت سنسان سے علاقے میں آ کر رک گئی
جان میوزک کی دنیا سے باہر آ گیا اور اس نے اپنے اردگرد دیکھا
رات کافی ہوچکی تھی اور ان کے آس پاس کسی ذی روح کا نشان تک نہ تھا
جان نے میکس کی طرف دیکھا تو پریشان سا ہو گیا
کیونکہ میکس یک ٹک سامنے کی طرف دیکھے جا رہا تھا اور اسے اپنے ارد گرد کا بالکل بھی ہوش نہیں تھا
میکس تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ ہوش میں آؤ
وہ میکس کو ہلاتے ہوئے بولا
لیکن میکس تو جیسے منجمد ہو چکا تھا۔
جان نے جب اس کی نگاہوں کا پیچھا کیا تو اس کی نظر سامنے ایک گھر پر پڑی
نیم پلیٹ پر لکھا ہوا تھا روز بلاک ہاؤس نمبر 340
روز بلاک۔۔ جان نے یہ لفظ دہرایا تو اسے کچھ یاد آگیا
ارے یہ کالونی تو شہر سے بہت ہٹ کر ہے
میکس یہاں کیوں آ گیا وہ بھی آدھی رات کے وقت۔۔
جان نے پانی کے چھینٹے مار کر میکس کو ہوش میں لانے کی کوشش کی ۔۔۔
ہوش میں آنے کی بجائے وہ بے سود ہو کر گاڑی کی سیٹ پر گر گیا
جان نے سمجھا کہ شاید سارا دن کام کرنے اور اس حسین دوشیزہ سے اظہار محبت کرنے کی پریشانی کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہے
لیکن وہ کیا جانتا تھا کہ معاملہ تو بالکل کچھ اور ہے
خیر اس نے میکس کو سنبھال کر گاڑی کے پچھلی سیٹ پر لٹا دیا اور گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچا
وہاں سے واپسی میں تقریبا ایک گھنٹہ لگ گیا
میکس کا اپارٹمنٹ چونکہ بلڈنگ کے گیارہویں فلور پر تھا اس لیے وہ اسے اس کے گھر تک تو نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لیے اس نے میکس کو گاڑی میں ہی لیٹ رہنے دیا اور گاڑی کی چابیاں اس کے پاس رکھ کر دروازہ بند کر کے پیدل ہی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا
نہ جانے کیوں جاتے ہوئے جان نے بھی محسوس کیا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے لیکن اس نے زیادہ غور کرنا مناسب نہ سمجھا
صبح سویرے جب میکس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو گاڑی میں لیٹا ہوا پایا
ذہن پر بہت زور دینے کے بعد بھی اسے یاد نہیں آیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا
اسے صرف اتنا یاد تھا کہ وہ اور جان اکٹھے آفس سے گھر واپسی کے لیے نکلے تھے
اس کے بعد کا سب کچھ اس کی یاداشت سے بالکل غائب ہوچکا تھا
اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا تو صبح کے سات بج رہے تھے
فورن اس نے سب خیالات کو ذہن سے جھٹکا اور گاڑی سے باہر آکر اپنے اپارٹمنٹ میں جا کے جلدی جلدی ناشتہ بنانے لگا
کیونکہ وہ اپنے ماں باپ سے الگ رہتا تھا اس لیے اس نے ناشتہ اور آفس کی تیاری خود ہی کرنی پڑتی تھی
17 سال کا ہونے کے بعد ہی اسے ماں باپ اپنی پرائیوسی میں خلل لگنے لگے تھے اس لیے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی نوکری کر کے کے خود کفیل ہو جائے گا اور ماں باپ سے علیحدہ رہے گا تا کہ اسے کوئی ڈسٹرب نہ کر سکے
اور وہ ایسا کیوں نہ کرتا یہ تو اس کے مغربی کلچر کا حصہ تھا جو کہ سے ورثے میں ملا تھا
خیر اس نے ہر بڑی میں ناشتہ کیا یونیفارم پہنا اور گاڑی سٹارٹ کر کے آفس کی طرف دوڑا دی۔
آفس پہنچتے ہیں وہ سب سے پہلے جان کے پاس گیا
جان تو جیسے پہلے ہی اس کے انتظار میں تھا اس کے آتے ہی پھٹ پڑا
ارے یار میکس تمہیں رات کو کیا ہو گیا تھا
تم گھر جانے کی بجائے شہر سے باہر ایک صمصام سے آبادی میں پہنچ گئے تھے اور وہاں پر بے ہوش بھی ہو گئے تھے پھر میں کار ڈرائیو کر کے تمہیں تمہارے گھر کے سامنے چھوڑ گیا تھا
یار سمجھ نہیں آرہی میں بھی خود پریشان ہوں
میکس نے جان کو جواب دیا
تم ٹینشن نہ لو ہو سکتا ہے اس پری چہرہ سے تعارف کرنے کی گھبراہٹ کی وجہ سے تمہارا دماغ نروس ہو رہا تھا۔ خیر تم اتنی ٹینشن نہ لیا کرومیں تمہیں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں کہ جو بھی ہوگا بہتر ہوگا۔
اب ان فرسودہ خیالات کو ذہن سے جھٹک اور کام میں لگ جاؤ یہ نہ ہو کہ وہ خبیث مینیجر ہمیں جھاڑ پلا دے۔۔
جان نے ہنستے ہوئے میکس کے گال پر تھپکی اور پھر دونوں اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ جیزس کرائسٹ۔۔۔۔
میکس کے منہ سے ایک دم نکلا
اس جملے سے جان سمجھ گیا کہ وہ پری پیکر دوشیزہ آفس میں داخل ہوچکی ہے۔
وہ میکس کا روز کا معمول جانتا تھا اس لیے اس پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنے کام میں مشغول رہا
میکس اپنے دل میں پکا ارادہ کر چکا تھا کہ آج اس پری چہرہ حسین دوشیزہ کا نام تو کم ازکم ضرور پوچھے گا۔
اس کام کے لیے اس نے لنچ ٹائم کو زیادہ موزوں سمجھا
اپنے دل میں پکا ارادہ کر کے وہ موہنی صورت کے خیالوں میں کھو گیا۔۔۔۔۔۔
مینیجر غلام رسول اپنے کیبن سے نکل کر سٹاف کا جائزہ لینے کے لئے سٹاف کے حال میں ٹہلنے لگے۔۔
سب کو دیکھتے دیکھتے جب وہ میکس کے پاس پہنچے تو انہوں نے معمول کے مطابق میکس کو خیالات کی دنیا میں مگن پایا لیکن انہوں نے خلاف معمول آج میکس کو ڈانٹا نہیں
بلکہ فکر مند ہوتے ہوئے اپنے کیبن میں واپس لوٹ گئے۔۔
گویا انہوں نے میکس کے چہرے پر وہ دیکھ لیا تھا عام آنکھیں جو دیکھنے سے قاصر تھی۔
۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔
تیسری قسط کے لیے اس لنک پر کلک کرے
https://urdufactsoflife.blogspot.com/2020/06/aik-anjan-mohabatepisode-3short-stories.html
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment