Aik Anjan Mohabat(episode-3)/SHORT STORIES

انجان محبت
تیسری اور آخری قسط

لنچ ٹائم پر میکس اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کال سنٹر کے سامنے والے کیفے کی طرف روانہ ہوا۔۔۔

Love, Coffe, Cup, Sweet, Romance, mohabat

کیفے میں حسب معمول کافی زیادہ رش تھا ائر کنڈیشنر نے درجہ حرارت کو کافی حد تک کم کر دیا تھا اس سب ماحول سے بے نیاز وہ پری چہرہ آئسکریم کھانے میں مصروف تھی
میکس نے جیسے ہی کیفے میں قدم رکھا یخ بستہ ہوا نے اسکا استقبال کیا
اسکی متلاشی نظریں اپنے گوہر مقصود کو تلاش کرنے میں لگ گئیں
ابھی وہ ادھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے اپنے پیچھے سے آواز آئی

ایکسکیوزمی مسٹر!!!
جیسے ہی میکس نے پیچھے مڑ کے دیکھا اسکے دل نے کہا اوہ جیزس کرائسٹ
اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کیونکہ جسکی تلاش میں وہ ادھر آیا تھا اور جسکو مخاطب کرنے کے لیے حیلے بہانے ڈھونڈنے رہا تھا اس نے خود ہی اسے مخاطب کر لیا تھا

او مسٹر کہاں کھو گئے؟؟
میکس کو اپنی طرف گھور گھور کے دیکھتا ہوا وہ پری چہرہ جھینپ سی گئی
عموماً میں دیکھتی ہوں کہ آپ اپنے دوست کے ساتھ اس کیفے میں آتے ہو لیکن آج اکیلے یہاں کیا کر رہے ہو(اس نے سوالیہ نظروں سے میکس کو دیکھ کر بولا)
وہ دراصل میں اپنے دوست جان کو ہی ڈھونڈ رہا تھا... "میکس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا"

کیا آپ مجھے اپنا نام بتانا پسند کریں گی میکس نے شرماتے ہوئے اسکا نام پوچھ ہی لیا
میرا نام جولی ہے اور آپ کا؟
میرا نام میکس ہے... آئیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں "میکس نے ٹیبل کی اشارہ کرتے ہوئے کہا"

                     +------------------+

جان کو اپنی آنکھوں پر قطعی یقین نہیں آرہا تھا
وہ اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟
کیونکہ اسکے سامنے سے کال سینٹر کے مین دروازے سے میکس اور وہ حسین و جمیل لڑکی آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوئے داخل ہو رہے تھے 
کچھ ہی سیکنڈ کے بعد وہ جان کے سامنے کھڑے تھے 
جان.. 
یہ جولی ہے میری منگیتر اور تمھاری ہونے والی بھابھی 
"میکس نے مسکراتے ہوئے جان سے کہا"
جان پر تو جیسے حیرتوں کے بم گر رہے تھے وہ حیران رہ گیا کہ آدھے گھنٹے کے وقت میں میکس نے جولی کو ایسا کیا پلا دیا کہ وہ نہ صرف اس سے اتنا بے تکلف ہو گئی بلکہ شادی کا قول و قرار بھی ہو گیا؟؟؟
خیر اس نے میکس کو مبارکباد دی اور دوبارہ سے کال سننے میں مصروف ہو گیا

کال سنٹر کے مینجر غلام رسول حیران و پریشان اپنے کیبن میں چہل قدمی کر رہے تھے
کچھ دیر یونہی پریشانی کے عالم میں ٹہلتے رہے پھر انہوں نے کال کر کے جان کو اپنے آفس میں بلایا جان تھوڑی ہی دیر کے بعد آفس میں آ موجود ہوا
غلام رسول جان سے بولے کہ جان تمہیں مجھ پر کتنا اعتبار ہے؟؟
تو جان بولا کہ سر ہم نے آج تک آپکو کبھی کام سے لاپرواہ نہیں پایا تو ہمیں آپ پر پورا اعتبار ہے
تو سنو جان تمہیں میرے لیے ایک خفیہ کام کرنا ہوگا اور اس کام کی بھنک کسی کو بھی نہیں لگنی چاہیے 
"مینجر غلام رسول نے جان سے کہا"
مینجر نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی پڑیا نکالی اس میں سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر جان کے ہاتھوں میں تھما دیا اور اس سے کہا کہ جان یہ ٹکڑا تمھیں اپنے دوست میکس کی جیب میں ڈالنا ہے اور اسے بالکل خبر نہیں ہونی چاہیے!

(جان حیران تو ہو گیا کہ یہ کیسا انوکھا کام ہے جو مینجر اسے کرنے کو کہ رہا ہے) 
لیکن اس نے قطعی سوال جواب نہیں کیا کیونکہ وہ مینجر پر مکمل طور پر اعتماد کرتا تھا.
اس نے وہ کاغذ کا ٹکڑا مینجر غلام رسول کے ہاتھوں سے لیا اور واپس کال سنٹر کے اپنے کیبن میں چلا گیا.

                    +------------------+

میکس کو چونکہ اپنی منزل مل چکی تھی اس لیے وہ کافی محنت سے کال سنٹر میں اپنا کام کر رہا تھا.
جان نے چپکے سے اسکے پاس بیٹھ کر اسکی سائڈ پاکٹ میں غلام رسول مینجر کا دیا ہوا کاغذ کا پرزا ڈال دیا اور اسے بھنک تک نہ لگی.
میکس تو جیسے ہواؤں میں اڑ رہا تھا اسے شاید دنیا کی سب سے بڑی خوشی مل گئی تھی اس نے آہستہ آہستہ جان کو بھی فراموش کرنا شروع کر دیا جان کو حیرت تو بہت ہوئی کہ میکس اس طرح کا تو نہ تھا
جس طرح کا رویہ وہ اب اختیار کیے ہوئے ہے
لیکن اس نے میکس سے یہ پوچھنا قطعی گوارو نہ کیا

کچھ دن اسی طرح گزر گئے  ایک دن میکس آفس میں نہ آیا تو جان کو کافی پریشانی ہوئی "اس نے سوچا کہ خیریت پوچھ لوں" وہ اسکے گھر پر گیا تو میکس وہاں موجود نہیں تھا وہ حیران و پریشان واپس لوٹ گیا

وہ یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوئے جا رہا تھا کہ میکس کا تو اپنے ماں باپ سے کب کا جھگڑا ہو چکا ہے جسکی وجہ سے وہ الگ رہتا تھا تو آخر وہ کہاں چلا گیا؟؟
اپنی طرف سے کوشش کی لیکن وہ میکس کو نہیں ڈھونڈ سکا
تو وہ اپنے کام میں پھر سے مصروف ہو گیا اسی طرح ایک مہینے کا عرصہ گزر گیا

                   +-------------------+
ایک مہینے بعد
جان اپنے کام میں ہمہ تن مصروف تھا اور مینجر غلام رسول اسکو کچھ سمجھا رہے تھے اسی لمحے جان نے محسوس کیا کہ اسکی پیٹھ کو کوئی تھپتھپا رہا ہے
اس نے آنکھیں اوپر اٹھا کے دیکھا تو اسکے سامنے میکس کھڑا مسکرا رہا تھا 
"جان کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا"
میکس کو صحیح سلامت واپس دیکھ کر مینجر غلام رسول کی بھی انتہا نہ رہی میکس کا رویہ عجیب اور پراسرار تھا اس نے مینجر غلام رسول کو کہا کہ اپنے کیبن میں چلیے سر آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
چنانچہ مینجر غلام رسول اپنے کیبن میں چلے گئے انکے پیچھے پیچھے میکس بھی انکے کیبن میں آگیا اور علیک سلیک کے بعد بولا کہ سر آپ کے دئیے ہوئے کاغذ کے پرزے نے میری جان بچا لی!
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس پرزے پر کیا لکھا ہو تھا؟ 
کیونکہ میں اس زبان کو سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔۔۔
مینجر غلام رسول بولے کہ تم اپنے دوست جان کو بھی یہاں بلا لو کیونکہ جو بھی بات ہوگی اسکے سامنے ہو گی. تاکہ وہ بھی ہر طرح کی پریشانی سے آزاد ہو جائے۔۔۔
تو انہوں نے کال کر کے جان کو بھی اپنے کیبن میں بلا لیا اور بولے جان تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں میکس کی جیب میں کاغذ کا پرزہ رکھنے کے لئے کہا تھا؟
میری بات غور سے سنو اسکے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ تھی!!!
دراصل میں نے میکس کی آنکھوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس پر کسی نے ہپناٹزم کر رکھا ہے تو میں سمجھ گیا تھا کہ میکس کی جان شدید خطرے میں ہے
جس حسین و جمیل دوشیزہ کے پیچھے میکس دیوانہ ہو پھرتا تھا وہ دراصل ایک بدروح تھی جو کہ میکس کو حاصل کرنا چاہتی تھی اور اسے اپنی دنیا میں لے جانا چاہتی تھی!

وہ تمھاری موجودگی میں میکس کو اپنے قابو میں نہیں کر سکتی تھی. اس لئے وہ ایسا موقع تلاش کر رہی تھی کہ میکس اسے اکیلے میں ملے اور وہ اسے اپنے قابو میں کر لے 
"مینجر غلام رسول نے سنجیدگی سے کہا"
ایک بار تو اس نے میکس کو قابو میں کر کے اپنے پرانے والے گھر میں لے جانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن خوش قسمتی سے اس دن تم اسکے ساتھ تھے اس لئے میکس کی جان بچ گئی تھی
لیکن قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا اس لئے میکس بھی اسکے حسن و جمال کے جادو میں گرفتار ہو چکا تھا اس لئے وہ کیفے میں اسے پرپوز کرنے کے لئے گیا 
جولی کو تو جیسے موقع میسر آ گیا اس نے میکس پر جادو کے ذریعے ہپناٹزم کر کے اس سے شادی کے قول و قرار تک کر لیے
اب میکس تم بتاؤ کہ تمہارے ساتھ ایک مہینے کے اندر کیا بیتی پھر بعد میں میں تمہیں یہ بتاؤں گا کہ اس کاغذ کے پرزے پر کیا لکھا تھا 

تو میکس بتانا شروع ہوا کہ۔۔۔ 
جس دن میں نے جولی کو پرپوز کیا تھا اس سے اگلے دن گھر جا کر مجھے عجیب و غریب توہمات کا احساس ہونے لگا مجھے ایسے لگنے لگا جیسے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے اور ہر وقت مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔۔
کچھ دن ایسے ہی چلتا رہا اس کے بعد میری طبیعت بگڑنے لگی اور میں نے آفس آنا تک چھوڑ دیا جولی روز میرے پاس آتی تھی اور مجھے کھانا کھلا کر چلی جاتی تھی
وہ مجھ سے شدید محبت کا اظہار کرنے لگی تھی بالآخر کچھ دنوں بعد جولی نے صاف کہہ دیا کہ تم مجھ سے شادی کر لو اس طرح روز روز کسی انجان کے گھر آؤں تو میرے گھر والے مجھے روک دیں گے۔۔۔
اپنے ماں باپ کو تو میں پہلے ہی خیرباد کہہ چکا تھا اس لئے میں نے جولی کی بات پر فوراً ہاں کردی اور اس سے شادی کرنے کے لئے رضامند ہو گیا بلکہ میں تو پہلے ہی جولی کے خواب دیکھ رہا تھا
کچھ دن بعد جولی نے کہا کہ میں تمہیں اپنے ماں باپ سے ملوانے اپنے گھر لے کے جاتی ہوں
 تو وہ مجھے جس جگہ پر لے کے گئی اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا شہر سے دور پرانی آبادی میں ہاؤس نمبر تین سو چالیس یہ بورڈ مجھے کچھ دیکھا دیکھا لگا پھر مجھے فوراً یاد آگیا کہ ایک دن اسی طرح بدحواسی کے عالم میں میں اسی گھر کے سامنے پہلے بھی آ چکا تھا اور تم اس وقت میرے ساتھ تھے جان۔۔۔

پر میں ان باتوں کو اگنور کرتا ہو اس کے ساتھ گھر میں داخل ہو گیا لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنی جون بدلی اور ایک بھیانک شکل اختیار کر گئی
اس نے مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا اور میں خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا

 وہ مجھے جکڑتی جا رہی تھی لیکن جیسے ہی اسکی ٹانگ میرے سائڈ کی پاکٹ پے لگی ایک دلخراش چیخ اسکے منہ سے خارج ہوئی
میں تو پہلے ہی ہکا بکا تھا اس اچانک کرشمے سے مزید حیران ہو گیا
جب میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھے کاغذ کا ایک پرزہ ملا مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آئی لیکن وہ پرزہ میں نے اسکے اوپر پھینک دیا اس کاغذ کے پرزے کا جولی پر پھیکنا تھا کہ جولی کے وجود کو آگ نے گھیر لیا اور پل بھر میں وہ جل کے خاکستر ہو گئی...

میں فٹافٹ اس گھر سے بھاگ کے باہر نکلا گاڑی میں بیٹھا اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھر بھی وہاں سے یکسر غائب ہو گیا
اب میرے لیے معمہ بن کے رہ گئی کہ جولی کون تھی اور آخر مجھ سے چاہتی کیا تھی؟

اس واقعے کے بعد میں کافی دن بیمار رہا اور یہاں تک بھی ہمت نہ کر پایا کہ کال سنٹر میں فون کر کے آپکو اطلاع کردوں آج طبیعت کچھ بہتر محسوس ہوئی تو یہاں پر اپنے دوست جان اور آپکو ملنے آگیا"

میکس کے منہ سے یہ کہانی سن کر مینجر غلام رسول بولے کہ اب میں تم دونوں کی حیرت کو دور کیے دیتا ہوں اس کاغذ کے پرزے پر اور کچھ نہیں بلکے اس دونوں جہان کے پیدا کرنے والے یعنی اللہ کا ایک اسم لکھا ہوا تھا جسکی طاقت نے تمہیں اس دن اک بدروح کے شکنجے سے بچا لیا
میکس اور جان یہ جان کے حیران رہ گئے

غلام رسول مزید کہتے جا رہے تھے کہ تم دیکھو کہ اس خدا کے نام میں کتنی طاقت ہے اور اب تم خد ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ اسے اپنے کام میں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی وہ وحدہ لا شریک ہے کوئی بھی اسکا بیٹا یا اسکی روح نہیں ہے!
دین حق صرف اسلام کا دین ہے اور ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے انہیں کبھی پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا اور نہ ہی وہ خدا کے بیٹے تھے

اس عجیب و غریب واقعے اور میکس کی جان بچ جانے کے اس کرشمے کی بنا پر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میکس اور جان اسلام کی دولت سے محروم رہ جاتے چنانچہ مینجر غلام رسول نے انہیں کہا کہ تم کل پاک صاف ہو کے میرے پاس آؤ۔۔۔

اگلے دن وہ پاک صاف ہو کر چمکتے ہوئے نئے کپڑے پہن کر مینجر غلام رسول کے کمرے میں داخل ہوئے
غلام رسول نے انہیں پہلے اسلام کی کچھ بنیادی باتیں بتائیں اور ان سے پوچھا کہ کیا تم بنا کسی دباؤ کے اپنے دلی رجحان سے اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہو ؟
دونوں نے اس بات پے لبیک کہا تو مینجر غلام رسول نے انہیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کلمہ مبارک پڑھایا اور انہیں دائرہ اسلام میں داخل کر دیا

اب میکس کا نام موحد اور جان کا نام احد تھا
مینجر غلام رسول نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی میکس عرف موحد سے طے کر دی جو بلاشبہ جولی کی طرح حسین سراپے کی مالک بیشک نہ ہو لیکن اعلیٰ اخلاقی اقدار اور اسلام کے نور سے پوری طرح وہ منور تھی

اس طرح میکس کی بے جا حسن و جمال پرست محبت اسے مصیبت میں مبتلا کرتی چلی گئی  کہ خالق حقیقی کی سچی محبت جو وہ اپنے ہر بندے سے کرتا ہے اسے شرک کی دنیا سے نکال کر ہدایت کے راستے اور عشق حقیقی کی طرف لے گئی.

Post a Comment

0 Comments