Insaniat or hum,...aj garmi bohat thi,.../SHORT STORIES

آج گرمی بھی بہت تھی اور گاڑی کا اے سی بھی کام نہیں کر رہا تھا 
میں منہ میں بڑبڑا رہا تھا ،،،

Child, Hurt, Crying, Human, Sad, Cry, humanity

کہ اچانک مجھے ایک معصوم سی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا ،،،
صاحب جی میرے بھائی نے صبح سے کچھ نہیں کھایا 
صبح سے میری کوئی پنسل نہیں بکی 
یہ کوئی 12، 13 سالہ بچی تھی جو ایک ہاتھ میں پنسلوں کا بنڈل اور دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں تھمائے مجھ سے مخاطب تھی ،،،
اس کا چھوٹا بھائی عجیب سی سوالیہ نظروں سے کبھی میرے چہرے اور کبھی اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا ،،
صاحب جی لے لو نا ایک پنسل صرف 10 روپے کی ھے ،،
بچی نے ایک بار پھر مجھ سے اصرار  کیا 
میرا گرمی سے برا حال تھا 
جی چاہا کہ ان دونوں کو جھڑکی دے کے یہاں سے بھگا دوں مگر پھر نجانے کیوں نہ چاہتے ہوۓ میرا ہاتھ میری جیب میں چلا گیا ،،
میں نے والٹ نکالا اور 50 کا نوٹ بچی کی طرف کر دیا اور خود ھی خود میں بڑا سخی بن کے اسے تکبرانہ لہجے میں بولا یہ لو ،،
بچی میرے لہجے سے بے نیاز جلدی سے بولی صاحب جی کتنی پنسلیں دوں ؟؟ 
10 کی ایک ھے اور 50 کی پانچ ،،
اس کی آواز اور آنکھوں میں عجیب سی خوشی تھی 
صاحب جی 5 لے لو میں بھی صبح سے بھوکی ھوں ،،
اور وہ پنسلیں گننا شروع هو گئی ،،
مجھے اس پہ عجیب سا غصہ آنے لگا 
اور دوسری طرف منہ پھیر کے میں نے بولا 
لے جاؤ پیسے اور جان چھوڑو نہیں چاہئے مجھے پنسل 
دوسری طرف کوئی جواب نہیں تھا بس خاموشی تھی ،
چند لمحوں بعد یہ سوچ کر میں نے رخ پیچھے پھیرا کے وہ دونوں جا چکے ھوں گے ،،
مگر میرا اندازہ غلط نکلا 
بچی کی آنکھوں میں نمی تھی اور اس کی آواز اس کے حلق میں دبی تھی 
پچاس کا نوٹ میری طرف بڑھا کر اس نے بہت مشکل سے مجھے بولا ،،
نہیں صاحب جی 
میں بھیک نہیں مانگتی 
ماں کہتی ھے جو بھیک مانگتے ہیں قیامت والے دن ان کے ماتھے پر 
،،،، سیاہ داغ هو گا ،،،

یہ کہہ کر اس نے پچاس کا نوٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا اور اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر واپس مڑ گئی ،،
میں پھٹی ہوئی آنکھوں سے انہیں جاتا ھوا دیکھ رہا تھا 
مجھے میرا دل کسی بہت ھی گہری کھائی میں گرتا ھوا محسوس هو رہا تھا 
اس کا یہ جملہ میرے کانوں اور ذہن میں زور زور سے گونج رہا تھا ،،
ماں کہتی ھے جو بھیک مانگتے ہیں قیامت والے دن ان کے ماتھے پر سیاہ داغ هو گا ،،
میرا جسم پسینے میں تر هو گیا 
مگر اب کی بار یہ گرمی کا پسینہ نہیں ندامت اور شرمندگی کا پسینہ تھا 
میں خود کو بہت چھوٹا اور حقیر سمجھ رہا تھا جو کہ بلکل سچ تھا ،،
اس دفعہ میری آواز میرے حلق میں کانٹے کی طرح چب رھی تھی ،
اور میں انہیں جاتا ھوا دیکھ رہا تھا 
بہت مشکل سے میں نے انہیں آواز دی 
ٹھہرو بیٹا ،،
میری آواز بڑبڑائی ہوئی تھی ،
میری آواز پہ دونوں بہن بھائی نے مڑ کر میری طرف دیکھا 
اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے 
میں نے  بہت مشکل سے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوۓ پوچھا 
کتنی پنسلیں ہیں تمہارے پاس ؟؟ 
بچی نے اپنے بھائی کا ہاتھ چھوڑا اور ڈور کر میرے قریب آ کر مجھ سے پوچھا 
صاحب جی آپ ساری پنسلیں لو گے ؟؟
میں نے رخ دوسری طرف کر کے آنسو ضبط کرتے ہوۓ کہا ہاں ساری لوں گا کتنے کی ہیں سب ؟؟
میں اس کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا 
مگر دوسری طرف منہ کر کے میرا ضبط ٹوٹ گیا اور آنسو میری آنکھوں سے میرے گالوں پہ بہہ گئے 
میں کن اکھیوں سے بس ایک بار اسے دیکھ پایا 
جو پنسلیں گن رھی تھی 
میرا دل چاہ رہا تھا میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رووں 
صاحب جی 9 پنسلیں ہیں ساری 
10 روپے کے حساب سے  90 روپے بنے 
وہ میری طرف پنسلیں کر کے حساب  بتا رھی تھی 
میں نے والٹ سے 100 روپے کا نوٹ نکالا اور اسے تھما دیا 
اس نے بھائی کے ہاتھ سے 10 کا اکلوتا نوٹ پکڑا جو کہ شائد صبح سے اب تک کی کمائی تھا 
اور میرے ہاتھوں میں دیتے ہوۓ بولی  
شکریہ صاحب جی 
میں چاہتا تھا اس کے معصوم اور ننھے ہاتھ چوم لوں اور میرے والٹ میں جتنے پیسے ہیں سب انہیں دے دوں 

مگر اس کی خودداری میں دیکھ چکا تھا 
میں انہیں دور جاتا ھوا دیکھ رہا تھا 
اور میری آنکھوں میں اب کی بار خوشی اور احساس کے آنسو تھے ،،وہ پنسلیں آج بھی میرے پاس ہیں 
انہیں جب بھی دیکھتا ھوں عجیب سے دل کش احساس میں گم هو جاتا ھوں 
اور وھی جملہ میری سوچوں میں بار بار گونجتا ھے 
،،،،،،،،،،، ماں کہتی ھے  جو بھیک مانگتے ہیں ،قیامت والے دن ان کے ماتھے پہ ،،،، سیاہ داغ هو گا ،،،،   


آمنہ بھٹی 

Post a Comment

0 Comments