Aik kahani,...sotan,../SHORT STORIES

کسی کی آپ بیتی 

یہ غالباً 1939 کا واقعہ ہے ۔جو اکثر ہم اپنی والدہ  کی زبانی سنا کرتے تھے ۔۔جب ان کی شادی ہوئی تو ان کی عمر 18 سال تھی ۔۔ ۔اور ان کے شوہر کی عمر 38۔ ۔۔40 سال کے آس پاس تھی ۔اور ان کے پہلے سے چار بچے تھے ۔۔بیوی کو فوت ہوئے ابھی چھ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ سب لوگوں کے کہنے پر  دوسرا نکاح کرنے پر راضی ہوگئے ۔۔اور کسی جاننے والے نے کسی طرح انہیں راضی  کرکے شادی پر رضامند کرلیا 

Cyprus, Lythrodontas, Old House, story, door, window

۔۔ہماری نانی بہت سخت مزاج خاتون تھی ۔اور ہمیشہ سے گھومنے پھرنے کی عادی تھی۔۔ اس لئے سارا گھر اور چھوٹے بہن بھائی ہماری امی سنبھالتی تھیں ۔نانی  غصے کی اتنی تیز تھی کہ اگر گھر میں سبزی گوشت کی مرضی کے مطابق نہ آتا تو گلی میں پھینک دیتی ۔کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کے آگے کچھ بول سکتا ۔۔

اس لیے جب امی کا یہ رشتہ آیا تو جب نانی نے ہاں  کردی تو  کوئی کچھ بھی نہ بولا ۔۔امی بیاہ کر  والد صاحب کے گھر آگی ۔ انہوں نے گھر کو پوری طرح سنبھال لیا ۔والد صاحب پوری طرح مطمئن ہوگئے کیونکہ اکثر وہ گھر سے باہر رہتے تھے اور گھر  میں اور کوئی نہیں تھا 

۔والدہ  بچپن  سے صوم صلات کی پابند تھی  ۔۔گھر میں جس جگہ ان کی نماز کا تخت بچھا ہوا تھا ۔۔اس کے قریب ہی اکثر انہیں کسی عورت کا ہیولا نظر آتا تھا ۔۔والدہ نے جب والد کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ تمہارا وہم ہے۔۔ لیکن پھر اکثر ایسا ہونے لگا۔۔کہ اکثر انہیں  کمرے میں آتے جاتے کوئی عورت نظر آتی ۔جو امی کو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتی ہوئی گزر جاتی ۔

ایک دن امی اپنی تسبیح  اتارنے لگی ۔تو ایک عورت جس نے سفید  ٹوپی والا  برقع   پہن رکھا تھا۔۔ وہ امی کو دھکا دے کر تیزی سے گزر گئی ۔امی  دھکے کے  لیے تیار نہ تھی ۔۔وہ گرتے گرتے سمبھللیں اورجب  پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ عورت نہ تھی 

۔اکثر  ایسا ہوتا کہ جب عورت امی کو نظر آتی تو اس وقت گھر میں کوئی بھی نہیں ہوتا 

۔شام کو جب والد گھر آئے تو والدہ نے ان کو بتایا کہ آج میں نے بہت قریب سے اس عورت کو دیکھا ہے اور پھر جب انہوں نے اس عورت کا حلیہ بتایا تو والد صاحب خیرت سے بولے۔۔ کہ ارے یہ تو میری مرحومہ بیوی کا حلیہ  ہے ۔جب کہ میری والدہ نے تو اپنی سوکن کو دیکھا ہی نہیں تھا ۔اس کے بعد کافی عرصے تک والدہ نے کچھ نہیں دیکھا۔

 ۔ایک مرتبہ گرمیوں کے دن تھے ۔بچہ سوئے ہوئے تھے۔۔ صحن میں ان کی چارپائیاں بچھی ہوئی تھی ۔رات 11 بجے کا وقت تھا ۔کہ  اچانک والدہ صاحبہ کی دردناک چیخ سے پڑوسی بھی اکٹھے ہوگئے ۔والد صاحب حیران پریشان اندر بھاگے۔۔ دیکھا تو والدہ پیر پکڑے درد کی شدت سے تڑپ رہی تھی ۔

۔پوچھنے پر بتایا کہ وہ سفید برقے  والی عورت ابھی ابھی میرے پاس آئی تھی اور اس نے میرے پیر کا انگوٹھا پکڑ کر بڑے زور سے کھینچا تھا ۔۔جس سے مجھے شدید تکلیف ہوئی ہے اور اب بھی  شدید درد ہو رہا ہے ۔صبح جب امی نے اٹھنا چاہا تو ان کے پیر نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔

ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے کوئی مرہم لگانے کے لئے دی ۔۔ سکائی کرنے کے لئے کہا ۔نانی اماں کو بھی بلا لیا گیا تھا۔۔ سکائی کے لیے کوئلے سلگا کر انگیٹھی  چارپائی کے نیچے رکھ دی گئی ۔۔تھوڑی دیر بعد نانی اماں کو کچھ جلنے کی بو آئی جب انہوں نے دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا لیکن جب وہ  امی کے پاس سے گزری ۔تو انہیں امی کی چارپائی سے دھواں سا اٹھتا ہوا نظر آیا جو ان کے بستر میں آگ لگنے کی وجہ سے نکل رہا تھا ۔جب کہ امی  اس بات سے بے خبر سکون سے سو رہی تھی 

۔والد صاحب کو  بتایا ۔ وہ فورا گھر پہنچ گئے ۔۔سب لوگ حیران پریشان تھے۔۔ کہ  امی کی پوری  ٹانگ جل گئی اور امی کو بالکل بھی محسوس نہ ہوا ۔نانی اماں نے کہا کہ تانگہ منگواؤ۔۔ میں ابھی اسی وقت اسے حافظ صاحب کے پاس لے کر جاؤں گی۔۔

 نانی کے حکم پر فورا ٹانگہ منگوایا گیا اور جب امی کو حافظ صاحب کے پاس لے کر جایا جا رہا تھا ۔راستے میں ایک ہندو جوگی کھڑا ہوا تھا تھا ۔اس نے جو والدہ کو تانگے میں دیکھا تو نانی سے کہا کہ اس کو تم کہاں لے جا رہی ہو ۔۔اس کو تو اس کی سوکن چمٹی ہوئی ہے ۔جب کہ امی اس وقت پردے میں تھیں اور صرف ان کے دوپٹے کا پلو نیچے کو لٹک رہا تھا جسے دیکھ کر اس ہندو  جوگی نے یہ بات کہی تھی ۔۔

۔جب نانی امی کو حافظ صاحب کے پاس لے جایا گیا اور انہوں نے پڑھائی شروع کی۔۔ اس کے بعد انہوں نے نانی کو بہت ڈانٹا اور والد صاحب سے بھی کہا کہ میاں آپ تو پختہ عمر  کے آدمی ہیں۔۔ آپ کو تمام حالات کا علم ہے ۔پھر بھی آپ نے اپنی مرحومہ بیوی کی چھ ماہی کی فاتحہ بھی نہیں کرائی ہے اور دوسرا نکاح کرلیا ہے ۔خیر ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے یہ اللہ کا بڑا کرم ہوگیا ہے۔۔ آپ فورا گھر میں فاتحہ درود کروائیں۔۔

 حافظ صاحب نے امی کا  41 دِن  کا علاج بتایا ۔۔ حافظ صاحب اپنے عمل کے لحاظ سے اتارے کے  بہت مانے ہوئے تھے۔۔ آج بھی ڈرگ روڈ اسٹیشن کے پاس ان کا چھوٹا سا مزار ہے اور عقیدت مند آ کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔پھر حافظ صاحب کے کہنے کے مطابق فاتحہ خوانی کی گئی ۔۔غریبوں میں کھانا تقسیم کیا گیا۔۔

 اس کے بعد کبھی امی کو ان کی سوکن  نظر نہیں آئی ۔۔اس واقعے کے بعد امی جب تک زندہ رہیں۔۔ اپنے تمام مرحومین کے لئے فاتحہ خوانی اور لنگر کا انتظام کرتی رہیں ۔


Post a Comment

0 Comments