ایک طلاق یافتہ لڑکی کی کہانی۔
یہ 3 سال پرانی بات ہے۔ایک دوست نے کہا کہ کسی کے گھر جانا ہے۔اور وہاں کچھ دیر کام ہے۔راستہ میں اس نے بتایا کہ اس کے ایک دوست نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے ۔تو اس کی سابقہ بیوی اپنے ابو کے ہمراہ اپنے جہیز کا سامان اٹھانے واپس آئ ہے۔دوست نے مزید بتا کہ وہ عورت اس کے دوست سے ایک سال بڑی تھی۔پھر ہم دونوں اسی بات پر مذاق کرنے لگے۔جب اس کے دوست کے گھر پہنچا تو کچھ دیر بعد وہ طلاق یافتہ لڑکی بھی اپنے والد کے ہمراہ وہاں سامان لینے پہنچ گئ تھی۔وہ لڑکی لڑکے سے کافی زیادہ عمر کی لگ رہی تھی۔جوانی گزرچکی تھی اس لڑکی کی۔
دوست نے کہا اچھا ہی ہوا ہےاس کی عمر زیادہ ہے۔گزارہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
پھر جب وہ لڑکی اپنا سامان اکھٹا کرنے لگی جو ہم نکال نکال کر اسے دے رہے تھے تو اس لڑکی کا باپ لسٹ نکال کر دیکھ رہا تھا۔
میں نے سرگوشی میں اپنے دوست سے پوچھا
کوئ بچہ وغیرہ تھا ان کا
تو دوست نے کہا ایک بیٹا ہے۔دوسال عمر ہے اس کی۔
دوست نے نئ شادی کرلی ہے تو بیٹا اب اس کی نئ بیوی کے پاس ہے۔میرا دل تڑپ اٹھا تو کیا بیٹا بھی اس سے جدا کردیا گیا ہے?
تو دوست نے جواب دیا کہ لڑکی کے والدین کے مالی حالات اب اچھے نہیں رہے۔اس کی پرورش کرنا مشکل تھی تو اس لیے اب بیٹا بھی لڑکے کے پاس رہے گا۔سابقہ بیوی راضی ہے اس بات پر۔
تب میں نے لڑکی کی آنکھوں جھانک کر دیکھا۔دکھ ہی دکھ تھا۔جیسے زندگی پر افسوس ہو رہا ہو۔
پھر میں نے سامان کی لسٹ نکال کر دیکھنے والے باپ کو دیکھا۔اس کی حالت اسی تھی جیسے بہت مشکل سےاپنے آنسو روک رکھے ہوں۔لڑکی کے باپ کا ضبط کا بندھن اپنے گھر جاکر ضرور ٹوٹے گا۔وہ اپنے گھر جا کر ضرور روئے گا میں نے سوچا۔
اس لڑکے کی نئ بیوی نے جب دیکھا کہ اسے کوئ خطرہ نہیں تو وہ بھی بیٹا اٹھا کر سامنے آگئ تو لڑکے کی سابقہ بیوی نے آنکھ اٹھا کربہت حسرت سے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر نہ جانے کیوں ضبط کر گئ وہ۔
وہ میری زندگی کا پہلا دن تھا جب مجھے بہت شدت سے احساس ہوا کہ ایک بیٹی کا دکھ کیا ہوتا ہے۔
دونوں باپ بیٹی میں کمال کا ضبط تھا۔اتنے افسردہ ہوکر بھی وہ دونوں بہت خاموش خاموش سے اپنا سامان سمیٹ رہے تھے۔
لیکن میں ضبط نہیں کرسکا۔میں یہ منظر زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکا۔میں وہاں سے نکل آیا۔میرا دوست مجھے روکتا رہ گیا۔
۔بیٹی کا دکھ کیا ہوتا ہے۔یہ مجھے اس دن پتہ چلا تھا۔
ماں باپ بیٹی کے رشتے کے لیے انتی سخت شرائط کیوں رکھتے ہیں یہ بھی میں نے اسی دن جانا تھا۔
اور ایک بیٹی کے باپ کی حیثیت سے اگر سوچوں تو اس سے بھی زیادہ سخت شرائط رکھوں۔بیٹیاں کھلونا نہیں ہوتیں کہ کوئ کھیل کر توڑ دے۔ بیٹیاں ماں باپ کے جگر کا ٹکڑا ہوتی ہیں۔
جب بیٹیوں کو کوئ دکھ یا پریشانی ہوتی ہے تو ماں باپ بہت تکلیف میں ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی ہر گھر کوخوشیوں اور مسرتوں سے آباد رکھے۔
آمین...میں نے بہت سی جگہوں پر دیکھا ہے طلاق دینے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی بس چھوٹی چھوٹی بات کو بڑا کر دیا جاتا ہے خدارا اس گناہ سے بچیں یہ بہت بڑا ظلم ہے کسی کی ماں بہن بیٹی پر.. میں جانتا ہوں ہر جگہ مرد کا قصور نہیں ہوتا مگر مرد کو اللہ پاک نے افضل ذہن دیا ہے وہ اپنی اعلی سوچ سمجھ سے ان باتوں کو ختم بھی کر سکتا ہے
آمنہ بھٹی
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment