main afsar to lagta hi nahi/SHORT STORIES

سر آپ افسر تو لگتے ہی نہیں ۔ 
بریگیڈئیر ر بشیر آرائیں ۔
Bayonet, Human, Man, Rifle, Silhouette, ARMY

میں 1995 میں جب بوسنیا سے واپس آکر یو این مشن ہاسپیٹل کا سامان آرمڈ فورسز میڈیکل اسٹورز ڈپو کراچی میں جمع کروا رہا تھا تو حادثاتی طور پر کور کمانڈر کراچی سے آمنا سامنا ہوگیا ۔ تعارف ہوا تو انتہائی محبت بھرے لہجے میں کہنے لگے ایک نیکی کا کام شروع کرنا ہے ۔ تم یہ بوسنیا ہاسپیٹل کا سامان چھور کینٹ لے جانے کی تیاری کرو ۔ جی ایچ کیو سے اس کی اجازت اور تمہاری پوسٹنگ کا بندوبست کرتا ہوں ۔

پتہ چلا کہ بینظیر صاحبہ نے تھر کے لوگوں کو علاج کی سہولت کے لیے کور کمانڈر کو کچھ فنڈز دیے تھے اور جنرل لہراسب نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چھور کینٹ میں ایک ہاسپیٹل بناتے ہیں ۔ آرمی یونٹوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کو بھی علاج کی سہولت مہیا ہو جائیگی ۔ صرف جی ایچ کیو سے اجازت لینا تھی ۔

میری پوسٹنگ 8 فیلڈ میڈیکل بٹالین چھور کینٹ ہوگئی ۔ عرصے بعد چیف آف آرمی اسٹاف بننے والے جنرل اشفاق کیانی اس وقت ہمارے بریگیڈ کمانڈر تھے ۔ چھور کینٹ زرو و شور سے بن رہا تھا اور ہاسپیٹل بلڈنگ کے بننے کی دیکھ بھال میرے ذمہ لگ گئی ۔

فیلڈ میڈیکل بٹالین میں ڈاکٹرز کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہوتی مگر کور کمانڈر نے کہا کہ اگر مقامی آبادی کو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے تو چپ چاپ شروع کر دیں ۔ میں یونٹ میں سیکنڈ ان کمانڈ تھا ۔ سی او نے ہاسپیٹل کے افسر وارڈ کو میس بنانے کی اجازت دے دی اور میں وہیں اسپتال کے اندر رہائش پذیر ہو گیا ۔ ارد گرد کے علاقوں میں اعلان کیا کہ فوجی ڈاکٹرز سے معمولی اخراجات پر سویلین لوگ علاج کروا سکتے ہیں ۔ تھر کے لوگ انتہائی غربت کا شکار نظر آتے تھے اور کینٹ کے اندر آنا ان کے لئے بالکل نیا تجربہ تھا ۔ بریگیڈیر اشفاق کیانی نے حکم صادر کر دیا کہ مریضوں کو اندر آنے سے بالکل نہ روکا جائے ۔ لوگ دھڑا دھڑ آنے لگے ۔

میں انکا محبت سے استقبال کرتا ۔ پانی چائے پلاتا ۔ زیادہ لوگ بوڑھے والدین کو علاج کیلئے لاتے یا خواتین بچے کی ڈلیوری کیلئے آتیں ۔ گھر میں دائی سے کیس خراب ہوجاتا تو خاتون کو گدھا گاڑی یا بیل گاڑی میں ہمارے پاس لے آتے۔ ہاسپیٹل کا خرچہ پوچھتے تو میرا سوال ہوتا تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں ۔ کوئی ہزار پندرہ سو بھی کہہ دیتا تو میں سمجھاتا کہ یہ تو بہت زیادہ ہیں ۔ اس میں آپریشن کرکے بھی کچھ پیسے بچ جائیں گے ۔ اس وقت لوگ مجبوری میں حیدرآباد تک ایمبولنس کا کرایہ ہی 4000 روپے دیتے تھے ۔ ہم نے کبھی کسی کو یہ احساس نہ ہونے دیا کہ پیسے کم ہونے کی وجہ سے اس کا آپریشن نہیں ہو سکے گا ۔ اس سارے کام میں کور کمانڈر جنرل لہراسب، بریگیڈ کمانڈر اشفاق کیانی اور ہمارے سی او کرنل نور میمن کی زیادہ مہربانیاں تھیں ۔ میجر روبینہ گائنی کی اسپیشلسٹ اور میجر اطہر مختار صدیقی انیستھیسیا کے اسپیشلسٹ کی خدا ترسی نے میرا کام اور بھی آسان کردیا تھا ۔ میں تو بس سہولت کار کی ڈیوٹی نبھاتا تھا ۔

میں نے وہیں کے لڑکوں کو چائے کا اسٹال دے دیا۔ کسی کو شہر سے دوائی لانے اور کسی کو میس ویٹرز لگا کر انکے دل سے فوج سے ڈرنے والا عنصر کچھ ہی دنوں میں دور کردیا۔

اب میرے سندھ کے معتبر دوست بھی ملنے آنا شروع ہوگئے ۔ مریضوں کے لئے کچھ سفارشیں بھی کردیتے مگر میرا سب کے لئے ایک ہی رویہ ہوتا تھا ۔ سب سمجھتے کہ اسکا خیال سب سے زیادہ رکھا جا رہا ہے ۔ مجھے حیرت اس وقت ہوتی جب تھر کے وڈیرے ، زمیندار اور کاروباری لوگ مجھے ایک ہی بات سمجھاتے کہ سر آپ ان گدھا گاڑیوں اور بیل گاڑیوں میں آنے والوں سے جس طرح ملتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ آپ افسر لگتے ہی نہیں ہیں ۔ فوجی افسر کا اپنا ایک اسٹیٹس ہوتا ہے وہ ہر ایرے غیرے سے ہاتھ بھی نہیں ملاتے اور آپ ان سے گلے ملتے رہتے ہیں اور چائے پلاتے ہیں ۔ آپ کا سارا رعب اور دبدبہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ میں یہ باتیں سن کر بس مسکراتا رہتا ۔

تھر کے ان لوگوں سے میں اب بھی اٹھ کر گلے ملتا ہوں مگر اب وہ چائے کے اسٹال والا لڑکا خوبصورت ہوٹل چلاتا ہے ۔ شہر سے دوائی لانے والا وہ غریب سا لڑکا اب آرمی ہاسپیٹلز کا میڈیسن کنٹریکٹر ہے اور مجھے آم دینے کے بہانے ملنے آتا رہتا ہے ۔

اس سوچ کی جھلک مدتوں بعد پھر نظر آئی ۔ میں سی ایم ایچ ملیر میں میجر اور لیفٹیننٹ کرنل رینک کی پوسٹنگ بھی کاٹ چکا تھا اور سب سویلین سویپرز ، مالی ، ویٹرز اور باورچی مجھے پچھلے 15 سال سے جانتے تھے ۔ جب میں برگیڈیر بن کر کمانڈ کرنے آیا تو وہ سب مجھے باری باری سلام کرنے آنے لگے ۔ میں ان سے اٹھ کر خوشدلی سے گلے ملتا ۔ ان کے نام لے کر ان کا حال پوچھتا ۔ ایک دن میں نے سنا کہ ایک مالی مجھ سے ملنے کے بعد ساتھیوں سے کہہ رہا تھا ۔ اوئے یہ تو بالکل نہیں بدلا ۔ برگیڈیر تو لگتا ہی نہیں ہے ۔

میں اب تک یہ گتھی سلجھا نہیں سکا کہ میں تو افسر بھی تھا اور برگیڈیر بھی بنا مگر لوگوں کو میں افسر یا برگیڈیر کیوں نہیں لگتا تھا ۔ شاید اس لئے کہ میں کبھی صاحب بہادر نہ بن سکا جبکہ ہماری پوری قوم کو صرف صاحب بہادر افسروں کی ضرورت ہے جنکا اپنا ایک اسٹیٹس ہوتا ہے اور وہ رعایا سے ہاتھ ملانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ آخر افسر کا ایک اسٹیٹس ہوتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments