ایک صاحبہ کی آپ بیتی
میرے شوہر ایک بہت اچھے اور پیشے کے لحاظ سے قابل ڈاکٹر ہیں ۔انہوں نے اپنے ابو کی بات مانتے ہوئے اپنی زمینوں پر ہی بڑا سا ہسپتال اور لیباٹری بنا لی تھی ۔اور آس پاس کے گاؤں قصبوں اور دیہاتوں کے لوگوں کی خدمت کرتے تھے ۔ہمارے تین نہایت خوبصورت صحتمند اور لائق بیٹے تھے ۔مجھے ایک بیٹی کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔بازاروں میں ملنے والے رنگ برنگے فراک گڑیا دیکھتی تو سوچتی بیٹی ہوتی تو اس کو سنوارتی ۔گاؤں کے لوگ بہت عزت اور محبت سے پیش آتے تھے۔۔ اپنے کھیتوں کی سوغاتیں بھیجتے نہ تھکتے ۔۔
ان دنوں میں چوتھی بار ماں بننے جا رہی تھی سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا ۔طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کبھی مجھے کوئی چیز سے کرایت محسوس ہوتی اور کبھی میرا کوئی چیز کھانے کا بہت دل کرتا ۔کبھی سبزی چکن کڑھائی چپلی ۔کباب ۔ یا چٹنی جو دل چاہتا وہی چیز لڑکا بنا دیتا ۔۔میں بہت خوش اور تھوڑی حیران ہو کر اس کو کہہتی کہ ارے بھائی میں تو تمہیں یہی بنانے کو کہنے والی تھی ۔
۔کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ جب مجھے کسی ایسی چیز کی طلب ہوتی تو گھر میں موجود نہ ہوتی تو کوئی نہ کوئی مریض یا کوئی جاننے والا کوئی دروازہ بجا کر دے جاتا۔
۔میں سوچتی کہ یہ آنے والا بچہ بہت درجوں والا ہے۔
۔ایک روز میرے شوہر بہت زبردست بھرے لال سیب اور دوسرا پھل لائے ۔۔ میرا دل چاہا کہ اس کی جگہ کہیں سے آم آجاتے۔۔
اس خیال پہ ہنسی آگئی۔۔ کے یہ اکتوبر کا آخری ہفتہ اور مجھے آم کھانے کی خواہش ۔تھوڑی دیر بعد جب میں کچن میں آئی تو وہاں ملازم لڑکے نے کہا کہ بی بی جی ڈاکٹر صاحب کا ایک بوڑھا مریض بنگلے پر آم دے گیا ہے۔۔ میں نے دھو کر فریج میں رکھ دئیے ہیں۔۔۔ میں حیران رہ گئی۔۔ میں نے کہا ۔۔ اس موسم میں۔۔۔
اس نے جواب نہیں دیا
۔جب میں نے فریج میں دیکھا تو موٹے تروتازہ ام پڑے تھے ۔۔میں کچھ خوفزدہ ہوگئی ۔۔ میں نے شوہر کو بتایا۔۔ شوہر نے کہا ۔۔ تم وہمی ہوگئی ہو ۔۔سندھ کے علاقے گرم ہیں ۔۔ وہیں سے کسی کے پاس سے آئے ہوں گے۔۔ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔۔ یہ جو آنے والا بچہ ہے یہ پہلے سے ہی اپنی ماں کی خاطر داری کر رہا ہے ۔۔
۔کچھ عرصے بعد ہمارے گھر نہایت خوبصورت بیٹی نے جنم لیا ۔۔بڑی بڑی کالی آنکھیں۔۔ بے حد سفید رنگ جسے اللہ تعالی نے فرصت میں بنائی ہو ۔لوگوں نے تحفوں کے ڈھیر لگا دیے ۔
۔ایک دن میں بچی کو فیڈ کروا کر بڑے سے کپڑے میں لپیٹ کر سلا کر باہر آ گئی ۔تھوڑی دیر بعد جب اندر گئی تو وہاں پر پھولوں سے سجی سرخ سبز سجاوٹ کی بڑی سی ٹوکری پڑی تھی ۔جب میں نے وہ قریب جا کر دیکھی تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔ بہت خوبصورت چھوٹے چھوٹے فراک جن پہ بے حد خوبصورت کڑھائی اور گل بوٹے بنے ہوئے تھے۔۔ بچی کے پاؤں کے لئے چاندی کی پائل اور اس کے ہاتھوں کے لئے چھوٹے چھوٹے سے گھونگروں لگے ہوئے کڑے ۔اسی کے ساتھ زنجیر لگی سونے کی انگوٹھی ۔۔نرم گرم سے کمبل اور ایسی مٹھائی کے ڈبے جو میں نے زندگی میں نہ کھائی ہو ۔۔
میں نے جلدی سے ملازم کو آواز دی ۔۔میں نے کہا ۔۔یہ سب کون لایا ہے ۔۔
اس نے کہا۔۔ وہی ام لانے والا بابا اور اس کے ساتھ ایک عورت تھی ۔۔اس نے نقاب پہنا ہوا تھا ۔۔ عورت نے کہا ۔بی بی جی مجھے پہچانتی ہیں۔۔ میں خود اندر جا کر دے اوگی اور بچی کی مبارکباد بھی دی اوگی۔۔ تو کیا وہ آپ سے نہیں ملی ۔۔
میں بہت حیران کھڑی تھی ۔میں نے کہا اچھا مجھے چائے بنا کر دؤ ۔۔
میں کافی دیر تک چیزوں کو دیکھتی رہی۔۔ جب میں بچی کو کپڑا ڈال کر ڈھانپنے کی تیاری کر رہی تھی۔۔ تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے قریب کھڑا ہے ۔۔مجھے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا ۔۔یہ بات میں نے شوہر کو بتای لیکن انہوں نے توجہ نہیں دی۔
۔ایک رات میں بچی کے رونے کی آواز سے اٹھی۔۔ میں نے دیکھا کہ اس کے جھولے کے پاس ایک عورت کھلے بالوں میں اور سیاہ کپڑوں میں بچی پر جھکی اسے تھپتھپا رہی تھی ۔بچی ہاتھ کا لمس پاکر خاموش ہوگئی ہے۔۔ خوف کے مارے میری آواز بند ہو گی۔۔ نہ میں حرکت کر سکتی تھی نہ میں شوہر کو اٹھا سکتی تھی ۔جیسے ہی اس عورت نے زیرو بلب کی روشنی میں سر اٹھایا تو میری جان نکل گئی۔۔ وہ انسانی شکل ہرگز نہیں لگ رہی تھی۔۔ وہ مجھے جاگتا دیکھ کر وہ سایا پلک جھپکتے غائب ہوگیا۔
۔میں نے فورا بچی کو اٹھایا اور اپنے ساتھ لٹا لیا ۔۔صبح جب میں نے شوہر کو بتایا تو وہ ہنس پڑے ۔۔انہوں نے کہا کہ تمہارے اعصاب کمزور ہوگئے ہیں ۔۔اکثر عورتوں کو یہ مسئلہ ہوتا ہے۔۔ تم چکن سوپ پھل وغیرہ زیادہ کھاؤ۔ نارمل ہو جاؤ گی ۔۔سارے وہم ختم ہو جائیں گے۔
۔ہمارا چوکیدار کو اچانک گاؤں جانا پڑا ۔تو وہ دو تین دن کے لئے اپنی دس سال کی بیٹی کو میرے پاس چھوٹے موٹے کاموں کے لئے چھوڑ گیا ۔۔وہ 10 سال کی بچی میری بچی کو بہلاتی رہتی ۔اس کو میں نے اپنے ہی بیڈ روم میں پلنگ کے ساتھ نیچے قالین پر لٹا دیا ۔اگلی دن آدھی رات کو وہ اٹھ بیٹھی۔
۔۔اس نے کہا۔۔ بی بی جی کسی کا پاؤں میرے پاؤں پر پڑا ۔۔میں جاگ گی تو دیکھا ایک عورت تھی۔۔ بال اس کے کھلے ہوئے اور کالے کپڑے ۔اس نے دونوں پاؤں سے کھینچ کر مجھے کونے میں ڈال دیا اور خود بچی کے پلنگ پر جھک گئیں۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔وہ رونے لگی
میں نے اس کو آیت الکرسی اور چاروں کل پڑھ کر پھونکے اور اس کو بہلایا۔۔ تب وہ دوبارہ سوئی۔۔ دوسری رات وہ ڈر کے مارے آٹھ گی ۔۔چیخیں چلائی اور رونے لگی ۔
بولی کہ منی کے پلنگ کے پاس وہ کل والی عورت پھر کھڑی اسے تھپا رہی تھی۔۔ میری آنکھ کھلی تو اس نے مجھے تھپڑ بھی مارا ۔
۔میرے شوہر بھی اٹھ گئے تھے۔۔ وہ غصے کے مارے دوسرے کمرے میں چلے گئے کہ سارا دن مریضوں کے ساتھ مغز ماری اور راتوں کو جنوں بھوتوں کے قصّہے ۔۔ ۔تم کم نہیں تھی تو یہ بھی آ گئی ۔تم دونوں وہمی ہو ۔
۔ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے رہے میری بچی دو سال کی ہوگئی تھی
۔جمعہ کا دن تھا۔۔ اب میں نے ایک بارہ تیرہ سال کے لڑکے کو رکھا ہوا تھا۔ جو کہ صفائی کرتا ۔گیٹ کھولتا۔ بند کرتا
۔میں نماز کے وضو کے لئے باتھ روم گئی اور بچی کو اس لڑکے کے حوالے کردیا کہ منی کا دھیان رکھنا ۔میں وضو کرنے کی تیاری کر رہی تھی کہ باتھ روم کی کھڑکی سے مجھے بالکل واضح اور غصے میں بھری کسی شخص کی تیز آواز آئی کہ وضو بعد میں کرنا۔۔ جاؤ اپنی بیٹی کو بچالو ۔۔میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔ پھر وہ آواز آئی ۔۔تم نے سنا نہیں بھاگو ورنہ وہ مار ڈالے گا لڑکی کو۔۔ اب میں کپکپا کر اور ننگے پاؤں صحن کی طرف بھاگی ۔۔وہاں کا منظر دیکھ کر میں چند سیکنڈ کے لئے ساکت رہ گئی۔
۔اس چھوٹے نے بچی کو لٹا کر اپنے پاؤں اس کے پیٹ پر رکھے ہوئے تھے اور اس کی نیپی کا سیفٹی پن جو کنڈے سے آٹومیٹک لاک ہوجاتا تھا۔۔ اسے کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ جب بچی مچلتی تو وہ اس پر تھپڑوں کی بارش کر دیتا ۔
۔میں چیخی۔۔۔ کیا کر رہے ہو ۔۔
مجھے اچانک ہوش آگیا ۔۔میں نے اس کو زوردار جھٹکا دیا۔۔ وہ گر گیا ۔۔میں نے اپنی بچی کو گلے سے لگایا ۔۔باربار اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔۔
چھوٹے نے جیسے ہی اٹھنا چاہا تو وہ دوبارہ جاگرا ۔۔اب جیسے اٹھنے کی کوشش کرتا تو کوئی اسے پٹخ دیتا ۔وہ رونے لگا۔۔ بولا میری توبہ بی بی جی بس کریں مجھے نہ ماریں ۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ قسم لے لیں۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔
۔میں حران پریشان اسے پٹتا دیکھتی رہی۔۔
میں نے کہا ۔۔لیکن میں نے تمہیں کیا کیا ہے۔۔ میں تم سے دور کھڑی ہوں۔۔ میں نےبچی پکڑی ہوی ہے ۔۔۔
وہ رو رہا تھا۔۔ بولا بس کرو۔۔ مت مارو۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ اس کی نیپی گیلی تھی۔۔ اسے اتار رہا تھا ۔۔۔
تڑپ کر رو رہا تھا ۔کچھ دیر بعد میں اس کو اندر لے گئی ۔۔میں نے کہا تمہیں کون مار رہا تھا۔۔
وہ بولا ۔۔وہی بڈھا بابا اور ایک خوفناک شکل والی عورت آپ کے سامنے ہی تو مار رہے تھے۔۔ آپ قریب آئی تو غائب ہوگئے۔
۔میں نے کہا مگر میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا ۔۔وہ بولا سامنے ہی تو کھڑے مار رہے تھے۔
۔روتے روتے اس نے پھر چیخ کے کہا۔۔ وہ دیکھیں ۔وہ پھر میری طرف آرہے ہیں۔۔ مجھے بچائے۔ میں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ وہ بھاگ کھڑا ہوا ۔
۔میں نے اسے کھینچ کر لاونج سے باہر نکالا۔۔اور کہا ۔۔ نکل جاؤ۔۔ بھاگو مسجد میں۔۔ مولوی صاحب کے پاس بیٹھ جاؤ ۔۔پھر یہاں مت آنا ۔
۔سخت ٹینشن کی وجہ سے میری سانسیں تیز چل رہی تھی۔۔ پتہ نہیں مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی ۔میں نے چیخ کر کہا آپ کون ہے۔۔ ہمیں مسلسل ڈرا رہے ہیں ۔۔ہم نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ۔پھر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
۔میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔ میری وہاں سانسیں رکنے لگی ۔۔
سامنے ایک سیاہ پوش بابا ہاتھ میں تسبیح لیے کھڑا تھا۔۔ بولا ۔بیٹی تم ناراض نہ ہونا اور نہ ڈرو ۔۔میں تمہارے باپ کی طرح ہوں ۔۔ ہمارا دوسری دنیا سے تعلق ہے۔۔ ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں۔۔ بس تمہاری طرح انسان نہیں ہیں۔۔ ہم کسی کو تنگ نہیں کرتے۔۔ جب تک ہمیں چھیڑا نا جائے۔۔۔ اللہ پاک نے ہماری مخلوق کا ذکر کیا ہے ۔
۔میں نے کہا ۔۔پر آپ میری بیٹی کے پیچھے کیوں پڑے ہیں ۔۔۔
اس نے کہا ۔۔ہم اس زمین پر برسوں سے آباد ہیں ۔ہم نے یہاں گھر بنایا ۔۔اسے بسایا۔۔ بچے ہوئے۔۔ ہندو ۔سکھ ۔مسلمان بھائیوں کی طرح رہتے ۔۔ہماری برادری میں بھی ہر مذہب کے لوگ تھے۔۔ پھر اچانک ہنگامے پھوٹ پڑے۔۔ ہندو سکھ سب کہیں چلے گئے۔۔ہماری برادری میں کچھ ہندو رہ گئے۔۔ وہ مسلمانوں کو اکثر تنگ کرتے اور شرارتیں کرتے ہیں۔۔ ہم انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔ہمارے بہت سے لوگ ہنگاموں میں پاؤں تلے روندے گئے ۔۔
۔میرا ایک ہی بیٹا تھا جب ہمارے گھر چاند سے پوتی آئی ۔۔ہم سب کی جان اس میں اٹکی رہتی ۔۔
پھر آپ کے صحن میں گھاس میں سے خود رو جڑی بوٹیاں ختم کرنے کے لیے بڑی زہریلی دوائیں کا سپرے ہو رہا تھا ۔۔میری پوتی یہاں تتلیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔۔ اسپرے بالکل اس کے چہرے پر کیا گیا۔۔ اس کی سانسیں اکھڑ گئی اور وہ مر گئی ۔۔
جب تمہارے ہاں بیٹی پیدا ہونے لگی ۔تو میری پوتی نے ماں کے خواب میں آکر کہا کہ اس گھر میں آنے والی اس بچی کا بہت خیال رکھنا .
۔بیٹی یہ تمہارے اور تمہارے شوہر کی بچی ہے. مگر اس میں ہماری پوتی کی شبیہ شامل ہے ۔اس کی خوشبو اس کے بدن میں رچی ہوئی ہے۔ ہم آپ کو تنگ نہیں کرتے ۔پر اس کو دیکھنے آتے ہیں ۔۔اور آج ہمیں بہت برا لگا ۔۔وہ لڑکا اپنی طرف سے اس کی naipi بدل رہا تھا لیکن اس کی بے پردگی ہم سے برداشت نہ ہوئی ۔۔
اچانک میرے شوہر دروازے پر آئے کھانستے ہوئے ۔۔تو جیسے ہی وہ آئے تو پلک جھپکتے بابا غائب ہوگئے۔۔ ان کی تسبیح بھی ان کے ہاتھ سے گر گئی ۔۔جس کے دانوں سے عجیب قسم کی روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ۔۔ میں نے فورا اسے اٹھا کر الماری میں ڈال دیا۔۔
میری بیٹی اب شادی شدہ ہے۔۔ اس بات کو کوئی 20 ۔۔21 سال گزر چکے ہیں۔۔ اسے کسی نے نہیں تنگ کیا ۔۔ بس وہ کہتی ہے امی عید و شبرات پر آپ بہت ساری چیزیں بھیج دیتی ہیں ۔آپ کیوں اتنا خرچہ کرتی ہیں۔۔
۔۔ میں مسکرا کر چپ ہو جاتی ہوں ۔ ۔میری بیٹی کو کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی سایہ سا اس کے قریب ہو۔۔ پھر غائب ہوجاتا ہے لیکن میں نے اپنی بیٹی کو کبھی کوئی حقیقت نہیں بتائی۔
آمنہ بھٹی
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment