Wo aur Uska Eshaq/SHORT STORIES

بھی میں سو کر اٹھی ہی تھی کہ عادتاً موباٸل پکڑ لیا اور جیسے ہی آن کیا دو چار میسج آٸے ہوٸے تھے اور چاروں میسج ایک ہی شخص کے تھے ۔۔جو کہہ رہا تھا کہ
اُٹھ گٸ ہو تو صبح بخیر۔۔
میرا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا یہ میسج دیکھ کر کے آخر اس بندے کو کیسے پتا چل جاتا ہے میرے اٹھنے کا اُس کے میسج سے مجھے ایسے ہی بیزاریت محسوس ہوتی تھی 
میں نے جواب دیا ”جی“ بس میرے مختصر سے جواب سے ہی جیسے وہ بندا خوش ہو جاتا تھا جلدی ہی دوسرا میسج بھی آ گیا ۔۔

Sad Girl, Red Rose, Lonely, Depressive

اتنی بے رخی کیوں کرتی ہو آخر تم تمہاری خاطر تو میں  آرمی میں چلا گیا ہوں کیونکہ تمہیں کیپٹن بہت پسند ہیں اپنی پسند چھوڑ کہ وہ بنا ہوں جو تمہیں پسند ہے تو پھر اتنی بے رخی کیوں کرتی ہو؟
یہ میسج پڑھ کے میرا شدت سے دل کیا میں چیخ چیخ کر کہوں مجھے خود سے بیزار کرنے والے بھی تو تم ہی ہو مگر ہر بار کی طرح یہ سوچ کر کچھ نہ کہہ سکی کہ جو میرا ہے ہی نہیں اسے اپنے خیالات کیوں بتاٶں کیوں اُسے اتنی اہمیت دوں کہ گلے شکوے کروں میں اس سے میں نے کوٸ جواب نہیں دیا بس اگر اسے پتا چلتا ہے کہ بے رخی کرتی ہوں تو وجہ بھی معلوم ہے اس کو 
وہ بس مجھ سے بات کرنا چاہتا تھا میسجز کرتا رہتا میں مسلسل اگنور کرتی آخر ا تنا ڈھیٹ کیوں ہے باز کیوں نہیں آجاتا مجھ سے بات کرنے سے 
اس کے میسجز آتے رہتے ۔۔۔ہو جاٸے گی پھر کبھی بات اسے اور کام ہی کیا ہے ہروقت بات کرنے کے علاوہ نہیں کرنا چاہتی اب میں بات اس سے بہت بیزار ہوں اب اس سے ۔۔
ہردن میں جب بھی وہ فری ہوتا ڈھیروں میسجز کرتا رہتا اسی طرح ایک دن میسج آیا ۔۔۔
ایک سال سے ناراض ہو تم مجھ سے تم تو کہتی تھی زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتی اپنے شیث سے پھر اتنی نفرت کب سے کرنے لگی کہ سال سے منا رہا ہوں تم مانتی ہی نہیں ہو یہاں تک کہ ایک سال سے تمہاری آواز تک نہیں سنی میں نے
کیسے کر لیتی ہو اتنی بے رخی ؟
بہت ہمت کی کہ جواب دوں مگر کیا جواب دیتی اگر جواب دیتی تو وہ جان جاتا میں آج بھی اول دن کی طرح اس سے  اتنی ہی شدید محبت کرتی ہوں جتنا وہ عشق کرتا ہے۔۔اور یہی تو میں چاہتی نہیں تھی کہ اسے کچھ پتا چلے بس بیزاریت کا خول چڑھاٸے رکھنا چاہتی تھی جو نصیب میں نہیں اس سے کیا حالِ دل بیان کرنا۔۔۔
پھر دوسرا میسج پڑھا۔۔
اس بار جب گھر آٶں گا تو تمہارے شہر ضرور آٶں گا اور ایک سُرخ دھاگہ بھی لیا ہوا ہے جو آج کل میری کلاٸ میں ہے تم کہتی تھی نا شیث وہ چیز گفٹ کرنا جو تم نے بھی استعمال کی ہو اور میں جب بھی وہ تمہارا دیا ہوا گفٹ دیکھوں یہ محسوس ہو تم میرے بہت پاس ہو اور بس میرے ہی ہو،،، تو اس بار تمہاری کلاٸ میں دھاگہ میں خود بانھدوں گا اور منا بھی لوں گا اس بار تو  ۔۔۔
میں بیزار ہو کے اس کی ایسی باتوں سے الٹے سیدھے جواب دیتی رہتی اور وہ کہتا مجھے اللہ کی امان میں دیا کرو لڑکی جب سونا ہو تم نے یا کہیں جانا ہو
میری بیزاری مزید بڑھ جاتی میں اور میں ایک پریکٹیکل لڑکی ان سب چونچلوں کو سمجھ ہی نہ سکی۔۔۔
اس صبح بھی اُٹھی تو اس کے میسجز آٸے ہوٸے تھے میں نے جوب ہی نہ دیا کرلوں گی بات پھر کبھی ۔۔۔مگر وہ چاہ رہا تھا میں بات کروں پتا نہیں اتنا ڈھیٹ کیوں ہے جتنا بھی دھتکاروں پھر بھی بات کرنے پہ ڈٹا رہتا ہے پھر کبھی جواب دے دوں گی۔۔۔
پھر میں نے جواب دیا بھی تھا پر اس کا میسج نہیں آیا ہرروز کرتی رہی میں میسج مگر جواب نہیں آتا تھا مجھے حیرانی ہوٸ وہ جو جتنا مرضی مصروف ہوتا جواب دیتا تھا پھر اتنے دنوں سے جواب کیوں نہیں دے رہا ؟۔۔۔
پھر اس کے نمبر سے کچھ دن بعد میسج آ بھی گیا 
دل کو خوشی تو ہوٸ مگر لاتعلقی والا رشتہ رکھتے ہوٸے جواب دیا
مگر دوبارہ میسج کی بجاٸے اسی کے نمبر سے کال آ گٸ اس نے وعدہ کیا تھا کال نہیں کرے گا بس بات کرو بھلے میسج پہ کرو تو پھر آج کال کیوں کررہا ہے میں بے رخی والے لہجے میں ابھی ”ہیلو“ کہنا ہی چاہتی تھی کہ 
میں حیران رہ گٸ وہ میسج اور اب کال کرنے والا شیث نہیں تھا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
وہ کوٸ اس کی کزن تھی یا بہن میں جان نہیں سکی ہاں بس اتنا سنا کہ
پانچ دن پہلے شیث اس دنیا سے چلا گیا تھا وہ شہید ہو گیا تھا۔۔۔۔
میں سکتے میں چلی گٸ مجھے یقین ہی نہ آیا 
میں اس لڑکی سے لڑنا چاہتی تھی یہ کہنا چاہتی تھی کیا بکواس کر رہی ہو ایسے کیسے شیث اس دنیا سے جا سکتا ہے ۔۔۔
مگر میں کچھ بھی کہہ ہی نہ سکی اسی کے نمبر سے اس کی کفن میں لپٹی تصویر ملی تھی مجھے میری تو جیسے دنیا اجڑ گٸ تھی 
وہ میری بے رخی کی اتنی بڑی سزا دے گا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہ جو مجھے اپنا عادی بنا چکاتھا کتنی آسانی سے اپنی عادی  بنی ہوٸ لڑکی کو چھوڑ گیا تھا ۔۔
دکھ ہی دکھ تھا کمرے میں دم گھٹنے لگا تو میں باہر کی طرف بھاگی اور ایسے لگا وہ اپنی ڈمپل والی سماٸل سے مجھے دیکھ رہا ہے میں چاروں جانب پاگلوں کی طرح اسے دیکھتی رہی بس ایک بار صرف ایک بار اس کے ڈمپل چُھونا چاہتی تھی اس کے کاندھے پہ سر رکھ کہ رونا چاہتی تھی بس آج میری ساری بےرخی ختم بس ایک بار وہ سامنے آجاٸے میں اسے کبھی نہیں جانے دوں گی کہیں ۔۔
مگر اس بار شیث کی بے رخی بہت جان لیواہ تھی وہ ویسا ہی کررہا تھا جیسا میں نے اس کے ساتھ کیا 
بس فرق یہ تھا اب وہ میسجز نہیں کرتا تھا اور میں جو اس کے میسجز سے بیزار ہوتی تھی دن میں بار بار موباٸل دیکھتی ہوں بس اس کے ایک میسج کے انتظار میں۔۔۔
 پھر کچھ عرصے بعد پارسل کے زریعے جو اسی کال کرنے والی لڑکی نے بھیجا تھا مجھے جس میں شیث کا دھاگہ بھی تھا اور  اس کے نام والی آرمی یونیفارم بھی مل گیا تھا جو اس نے پہنا تھا پتا نہیں کیسا عشق کرتا تھا جس میں میری بےرخی سہنے کی ہمت تھی بھی اور نہیں بھی اور اتنی سخت سزا دے گیا تھا
چار سال کا عرصہ گزر گیا آج بھی اس کے میسج کا انتظار کرتی ہوں اس کا دیا ہوا دھاگہ بھی میری کلا ٸ میں ہے جو اس کی غیرموجودگی میں بھی اس کی موجوگی کا احساس دلاتا ہے اس کا یونیفارم خود پہنتی ہوں خود ہی شیث بن کے خود کو خود ہی گلے لگا کہ پُھوٹ پُھوٹ کے رو دیتی ہوں
میں خود تو اب کچھ بھی نہیں اس کا عشق کتنا طاقتور تھا دور ہو کے بھی پاس ہے
اور شیث کا عشق یہ تو ڈیزرو کرتا ہی ہے کہ اس کا دیا ہوا سرخ دھاگہ ہمیشہ میری کلاٸ کی زینت بنارہے۔۔۔

آمنہ بھٹی 

Post a Comment

0 Comments