سماجی ذہانت
’’سچی ہمدردی صرف یہ نہیں کہ آپ کو دوسروں کے درد کا احساس ہو، بلکہ اس درد کو دُور کرنے کی تدبیر بھی کیجیے!‘‘
(ڈینیل گولمین)
اس میں دو رائے نہیں کہ انسان اس کائنات کی سب سے ذہین مخلوق ہے۔ انسانی ذہانت پر دنیامیں بے تحاشا تحقیقات ہوئی ہیں۔ آج ہم انسانی ذہانت کے بارے میں تاریخ سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔ ہم جذباتی ذہانت کا ذکر کرچکے ہیں اور اب ہم آپ کو انسان کی سماجی ذہانت (سوشل انٹیلی جنس) کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔
جتنی تحقیقات انسانی مزاج پر ہوئی ہیں، شاید ہی کسی اور چیزپر ہوئی ہوں۔ آج ان تحقیقات کی بدولت ہم جانتے ہیں کہ جینئس یا ذہین کی کئی قسمیں ہیں اور ان میں ایک بڑی ذہانت ’’سماجی ذہانت‘‘ ہے۔ جن لوگوں میں یہ ذہانت پائی جاتی ہے، انھیں دوسروں سے بات چیت کرنا آتا ہے، اٹھنا بیٹھنا آتا ہے اور وہ زیادہ ترقی کر تے ہیں۔ جو لوگ بات چیت نہیں کرسکتے، اپنی بات سمجھا نہیں پاتے اُن میں سماجی ذہانت کم تر ہوتی ہے۔ وہ زیادہ ترقی بھی نہیں کرپاتے۔
سماجی ذہانت اور آپ کا کیرئیر
معاشرے میں جن لوگوں کا واسطہ دوسرے لوگوں سے زیادہ رہتا ہے، وہ زیادہ سماجی ذہانت رکھتے ہیں۔ جو لوگ دفتر میں ایک ہی میز کرسی پر بیٹھے بیٹھے کام کرتے ہیں، جو ہر وقت کمپیوٹرپر کام کرتے ہیں، فائلیں دیکھتے رہتے ہیں، یا جو خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں ان میں یہ ذہانت کم ہوتی ہے۔ عام طورپر یہ پہلے سے آدمی میں بہ درجہ اتم موجود ہوتی ہے، لیکن کچھ لوگوں میں وقت اور حالات و واقعات کے ساتھ بڑھتی اور سامنے آ تی ہے۔
آپ کی سماجی ذہانت کا لیول
جو لوگ اپنی ذات کے اندر محدود رہتے ہیں ان میں سماجی ذہانت کم ہوتی ہے لہٰذا ان کیلئے سماج میں گھلنا ملنا، موثر ابلاغ کرنا اور تعلقات بنانا مشکل ہوتا ہے۔ سماجی ذہانت کا کیرئیر میں کامیابی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ چنانچہ ایسا کیرئیر جس میں سماجی ذہانت کی زیادہ ضرورت ہو، اور آپ سماجی ذہانت کم رکھتے ہوں تو اس کیریر میں آپ کی کامیابی کے امکانات کم تر ہوجاتے ہیں۔ مثلاً، ایک نوجوان ٹرینر بننا چاہتا ہے اور اس میں سماجی ذہانت کی کمی ہے تو اس کیلئے ٹرینر بننا مشکل ہوگا، کیونکہ ٹرینر کا کام ہی لوگوں سے ملنا جلنا اور بولنا ہے۔ اچھے ٹرینر میں جو خوبیاں درکار ہیں،ان کیلئے سماجی ذہانت درکار ہے۔ یہ تمام خوبیاں سوشل جینئس کی علامتیں ہیں۔ جس میں یہ علامتیں نہیں پائی جاتیں، وہ ٹریننگ میں زیادہ آگے نہیں جاسکتا۔
ایسے بے شمار لوگ ہیں جنھیں موقع ہی نہیں ملا ہوتا کہ اُن کی سماجی ذہانت سامنے آئے۔ چنانچہ انھیں جیسے ہی سماجی ذہانت کے اظہار کا موقع ملتا ہے، وہ اپنے جوہر دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ جب آدمی اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ وہ بات کرنا جانتے ہیں اور میل جول میں ماہر ہیں تو پھر وہ بھی لاشعوری طور پر ان کے رویوں کو اپنانا شروع کردیتا ہے۔ اس میں بھی یہ ذہانت پیدا ہونے لگتی ہے۔
لیڈرز کا لازمی وصف
کچھ لوگ اپنے آپ کو بہت جلد تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ لیڈ کرنا شروع کردیتے ہیں، کسی فیکٹری میں ہوں تو یونین بنالیتے ہیں، سیاست میں آجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سماجی ذہانت پہلے سوئی ہوتی ہے اور جب جاگتی ہے تو اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کو اپنے ساتھ ملا کر ادارہ کھڑا کرنے یا تحریک شروع کرنے میں جواب نہیں رکھتے۔ عموماً کاروباری افراد میں سماجی ذہانت کی فراوانی ہوتی ہے۔ وکالت کے پیشے سے منسلک لوگ بہت سماجی ذہین ہوتے ہیں۔ ٹیچرز میں سوشل جینئس ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا تعلق سیلز یعنی خریدو فروخت سے ہے، وہ بھی بہت سوشل جینئس ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں اپنی بات منوانی آتی ہے اور اپنی موثر گفتگو کے ذریعے اپنا کاروبار خوب چلاتے ہیں، سماجی ذہین ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر سماجی ذہانت لیڈرشپ کی خوبی ہے۔ جو لوگ لیڈ کرنا چاہتے ہیں، اُن کیلئے اس ذہانت کا حصول بہت ضروری ہے۔
ہر شعبے میں بہت کامیاب، اوسط اور ناکام لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا کے جتنے بڑے لیڈرز ہیں ان کے اندر سماجی ذہانت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ مارٹن لوتھرکنگ کو پڑھ لیجیے یا تاریخ کے کسی دوسرے لیڈر کی زندگی کا مطالعہ کیجیے، آپ دیکھیں گے کہ انھیں بات کرنی آتی تھی، ان کو بات سمجھانی آتی تھی۔ جتنا بڑا لیڈر ہوتا ہے، اس کی سماجی ذہانت کی سطح اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ خاندان کے وہ لو گ جن کے بغیر فیصلے نہیں ہوتے، جن کے ساتھ چل کر سارے خوش رہتے ہیں، جن کی ہاں سب کی ہاں ہوتی ہے، وہ سوشل جینئس ہوتے ہیں۔ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تنازعات کو چٹکیوں میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے افراد بھی سماجی سطح پر بلا کے ذہین ہوتے ہیں۔
سماجی ذہانت سیکھنے کی چیز ہے
ہم سب کو سماجی ذہانت سیکھنا چاہیے، کیوں کہ یہ بنیادی انسانی ذہانت ہے۔ معروف مصنف ڈیل گارنیگی نے اس شعبے پر بہت کام کیا ہے۔ اس کی کتابیں بازار سے مل جاتی ہیں۔ انھیں پڑھئے۔ اکیسویں صدی کے مزاج اور ضروریات کے مطابق سماجی ذہانت کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور کورسز کرائے جاتے ہیں۔ اپنی سماجی ذہانت بڑھانے کیلئے ان کتابوں کا مطالعہ اور کورسز میں شرکت بہت ہی مفید ہے۔ ان کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ سماج میں کیسے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، معاملے کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے، تعلق کو کیسے نبھایا جاسکتا ہے۔ کام کو انجام تک پہنچانے کیلئے لوگوں کا ساتھ درکار ہوتا ہے، یہ تعاون کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سماجی ذہانت سیکھی جاسکتی ہے، اسے پیدا کیا جاسکتا ہے اور اسے بہتر بھی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ آپ کیلئے اس دنیا میں انسانوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے واسطے سماجی ذہانت کا حصول کتنا ضروری ہے۔ جب کسی شے کا فائدہ مستحضر ہو تو اس پر محنت کرنا، وقت صرف کرنا اور پیسہ اور توانائی کی سرمایہ کاری کرنا آسان بھی ہوتا ہے اور پُرلطف بھی۔
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment