"انوکھی محبت"
دیکھ عجوہ تجھے بڑی مشکل سے اجازت ملی ہے __خدا کے واسطے وہاں یہ بد معاشیاں نہ کیجیئو، بڑی مشکل سے تیرے ابا جان مانے ہیں وہ یونی شونی کے لیے ،بس عزت رکھ لیجئیو مجھے تماشے لڑائیاں نہیں چاہیے ،سمجھی کے نہیں_ں_ں ؟جمیلہ یہ بات پچھلے ایک گھنٹے سے اپنی غنڈی بیٹی کو سمجھا رہی تھی پر عجوہ کہ۔کان پر تو جیسے جوں تک نہ رینگی تھی،وہ اب بھی ٹی وی میں مگن لیز کی پیکٹ کھولے، مردانہ اسٹائیل سے بیٹھے، کھاتے ہوئے کشتی دیکھنے میں مصروف تھی ،عجوہ آری_ او کمبخت٬ کیا کہہ رہی ہوں تجھ سے بند کر یہ سب _جمیلہ نے جھنجھلاتے ہوئے ٹی وی بند کردیا ،ارے اماں کیا کردیا یار ،ابھی وہ اسے ایسے پٹخ دیتا، آرے اماں جانی سینا کا یہ دعو تو دیکھنے دیتی ،سارا مزہ کرکرا کر دیا ،عجوہ نے ناگواری سے کہتے لیز کی پیکٹ ایک طرف کی۔
عجوہ کیا کہا یاد ہے نہ وعدہ کر تو وہاں مار دھاڑ نہیں کرے گی ،ورنہ؟ __ارے اماں سمجھ گئی نہیں توڑوں گی کسی کی ہڈیاں ، نہیں ماروں گی بلاوجہ کسے سے نہیں الجھو گیں، اب بند بھی کر اپنی نصیحتیں __عجوہ بیزاری سے کہتی استین اپنے مخصوص انداز میں کہنیوں سے اوپر چڑھائے، گلے میں دوپٹے کو خم دیے بڑے بالوں کی اونچی پونی بنائے جوتے پہننے لگی ، اب کہاں جارہی ہے عجو_و__؟جمیلہ کو عجوہ کے تیور کچھ عجیب لگے تھے ،ارے اماں کہیں نہیں بس وہ میری سہیلی ہے نا مہرو! اسے وہ پنچر والا اکرم روز ٹیوشن سے آتے ہوئے تنگ کرتا ہے ،اج اس کی خبر لینی ہے٬ یہ ریسلنگ جو اتنے سالوں سے دیکھ رہی ہوں میں، اگر دوست کی مدد کرنے میں کام نہ آئے تو کیا فائیدہ عجوہ کا۔
عجوہ نہیں جا بیٹا رک جا ،جمیلہ بیگم نے آگے اسکی طرف قدم بڑھائے اسکو روکنا چاہا ،اماں آج نہیں وہ منحوس کالے بن مانس کی ہمت کیسے ہوئی میری سہیلی کو تنگ کرنے کی، کیا سمجھتا ہے اسکا کوئی بھائی باپ نہیں، پر اسے نہیں معلوم، عجوہ ملک نامی دوست ہے مہرو کی،جمیلہ بولتی رہ گئی پر وہ عجوہ ہی کیا جو دوستی نہ نبھائے۔
یونی میں آج اسکا پہلے دن تھا ،اماں کی نصیحت، ساتھ ابا جی نے تڑی لگائی تھی، اگر لڑائی کی تو گھر بیٹھا دوں گا بڑی سی کالی چادر اور سلیقے سے سر پر دوپٹا لیے وہ کاریڈور سے ہوتے ہوئے اپنے ڈیپارٹ کو ڈھونڈ رہی تھی ،شرافت کی ایکٹنگ کرنا، نزاکت سے چلنا کتنا مشکل آج اسکو معلوم چلا تھا ،وہ بلکل بھی سادہ، دھیمی مزاج اور ڈر پوک لڑکی نہ تھی ،ایکٹنگ کچھ زیادہ ایکسٹرا اڈنری ہوگئی تھی کیونکہ اسے ان سب کی عادت جو نہ تھی ،دور کھڑے سینئر اسٹوڈینٹس کو، سامنے سے آتی شریف لڑکی دیکھ کر شرارت سوجھی ،سمیر نامی لڑکا جس سے شیطان بھی پناہ مانگتا تھا ،عجوہ کے ایک دم سامنے آ دھمکا، وہ دانت پیس کر رہ گئی، دل کیا ایک مکا جڑ دے ،پر لڑائی نہیں کرنی تھی کیا آپ اپنا ڈیپارٹ ڈھونڈ رہیں ہیں؟ سمیر انتہائی مہذب انداز میں گویا ہوا ،جی__ وہ مجھے انجینیئرنگ ڈیپارٹ کا بتا دیں وہ کہاں ہے ،عجوہ نے نیچے نظریں کیے ، آواز کو مدھم رکھے بڑی مشکل سے کہا،جی_ یہاں سے اوپر کی طرف جائیں وہاں سے ٹرن لیں دو ڈیپارٹ ہیں رائٹ والا ہے ،سمیر نے بڑی صفائی سے ڈیپارٹ کا غلط ایڈریس سمجھایا ،شکریہ بولتی وہ وہاں سے بتائے گئے ایڈرس پر چلی گئی،سمیر نے پیچھے مڑ کر آنکھ کا کونا دبائے وکٹری کا سائن اپنے گروپ کو دیکھایا، اور اب وہ سب سمیر کے ہمراہ بتائی گئی جگہ پر پہنچے ،عجوہ کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا اس منزل پر کوئی کلاس نہیں بلکہ پرانے بوسیدہ ٹوٹے پھوٹے باتھ روم بنے تھے ،
پیچھے کھڑا سمیر اور اسکے ساتھیوں کا قہقہ بلند ہوا ،عجوہ کا دماغ گھوم رہا تھا عموماً لڑکیاں ایسی سچویشن پر رو جاتی ہے پر وہ خاموشی سے پیچھے پلٹے اک خونخوار نظر ان سب پر ڈالے اور آخری نظر غصے سے بتیسی نکالے سمیر پر ڈالے وہاں سے چلی گئ۔
یار تین دن ہوگئے وہ لڑکی نظر نہیں آئی یار ہم نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا ،سمیر اور اسکے گروپ کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہورہا تھا ،کیونکہ انکی وجہ سے عجوہ یونی نہیں آرہی تھی،سمیر کو دوسرے دن ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اس نے سوچا تھا کہ وہ اپنی اس حرکت پر عجوہ سے معافی مانگے گا کیونکہ اس دن اچھا خاصہ تماشا سمیر کی وجہ سے لگ گیا تھا،
سمیر_ر _!سمیر اپنے گروپ کے ہمراہ بیٹھا تھا جب ایک لڑکی آئی ،جی میں ہوں سمیر!وہ سر ریحان اپکو اوپر لیب میں بلا رہے ہیں ،لڑکی یہ بول کر جا چکی تھی ،جب کہ سمیر اوپر لیب کی طرف بڑھنے لگا ،جب اسے کسی نے پیچھے سے روم میں کھینچ لیا، سمیر نے آنکھیں کھولیں، سب اتنی اچانک منٹوں میں ہوا اسے پتا بھی نہ چلا ،اوپر کی چٹخنی بند کرکے وہ پیچھے مڑی ،
ہاں__ تو اب تم جیسے چوہے عجوہ ملک کو آلو بناؤ گے ،سمیر نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سامنے دیکھا جہاں وہی لڑکی کھڑی تھی ،بس حلیہ اس دن کی نسبت اج الگ سا تھا ،استین کو اوپر کرے وہ سمیر کا گریبان پکڑے اسے قریب کیے بولنے لگی اب بتاتی ہوں، مسٹر سمیر کے عجوہ ملک سے پنگا لینے کا انجام کیا ہوتا ہے تین دن سے جو انتقام کی آگ میرے دل میں لگی ہے آج اس میں تم جل کر راکھ ہو جاؤں گے ،عجوہ غصے سے بول رہی تھی ،جب کہ سمیر اس لڑکی کے اتنے قریب کھڑا ، بس اسکی بھوری آنکھوں کے اوپر مڑی پلکوں کے سحر میں ڈوبنے لگا، چھوٹی سی غصے سے لال ہوتی ناک اور گلابی ہونٹوں سے بولتی وہ لڑکی ،غصے سے لال ہوتے گداز گال پر پڑتا وہ خوب صورت سا ڈمپل ،سمیر پوری طرح سے اس خونخوار پری کے حسن کے سحر میں ڈوبتا چلے گیا ،وہ بولتے بولتے اب سارے جانی سینا کے دعوؤ سمیر پر آزما چکی تھی ،سمیر تو پہلے ہی اسکی خوبصورت کے سحر میں کھویا تھا، ہوش تب آیا جب وہ اس پر کوئی سو دعوؤ آزمائے، اب اپنے ہاتھ جھاڑ رہی تھی ،ایک ادا سے اپنی اونچی پونی پیچھے کیے وہ نیچے بے سود پڑے سمیر پر جھکی ،اگلی بار کسی لڑکی سے ریگنگ کرتے ہوئے سو بار سوچنا٬ سمجھیں! ورنہ روز تمھارا کچومر اپنے ہاتھوں سے بناؤں گی ،ہونہہ___ اور اگر کسی کو بتایا کہ یہ میں نے کیا ہے تو تم جانتے نہیں عجوہ ملک کو، ایسے غائب کروں گی کہ لوگ بھول جائے گے کہ کوئی سمیر نامی شخص بھی تھا اس دنیا میں، عجوہ چٹکی بجاتے دھمکی دیے وہاں سے چلی گئی ،جبکہ کچومر بنا سمیر اپنے وجود کو با مشکل باہر گھسیٹے روم سے باہر نکلا ،وہ کوئی کمزور مرد نہیں تھا بس اسکی خوبصورت کے آگے ہتھیار ڈال گیا تھا۔
اگلے دن سمیر کا سوجا منہ سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، وہاں سے گزرتی عجوہ کے منہ پر تبسم بکھر گئی جب اسکے دوست نے ان زخموں کی وجہ پوچھی ،،تو سمیر عجوہ کو دیکھتے ہوئے شرارت سےبولا ، بس یار کل میرا چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا ،یار تو تم نے رپورٹ نہیں کی اسکے خلاف، سمیر کے دوست نے پوچھا ، نن نہیں یار کیونکہ کار چلانے والی پری سے مجھے پیار جو ہوگیا ہے،سمیر نے نظریں دور تک جاتی عجوہ کو دیکھا، جو پلٹ کر سمیر کی بات پر مسکرائی تھی اور سمیر نے اسی پل اپنا دھڑکتا دل تھام لیا ۔💕
آمنہ بھٹی

0 Comments
kindly no spam comment,no link comment