Hum andar say Khokhalay kiun?.../GENERAL ARTICLES

 ہم ایک حسین مسکن میں تھے اور پھر وہاں نہ رہے۔

selective focus photography of wood branches, nature

 ہم ایک حسین مسکن میں تھے اور پھر وہاں نہ رہے۔
 ہم اپنی اصل سے کہیں گم ہوگئے ،ہم زمان و مکان کو پارکرکے کسی اور دنیا میں چلے آئے ،ایک حقیر دنیاکی طرف۔مگر رَب سے جدائی میں ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہوا جوہمارے لیے بڑا درد ناک تھا۔اب ہم جسمانی طور پر اللہ کے ساتھ نہیں رہے ۔اب ہم اس کو اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھ اور کانوں سے سن نہیں سکتے ،جیسا کہ ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کویہ شرف ملا تھا، اب ہم اس سے محروم ہوگئے تھے۔

نتیجتاً ہم مایوس ہوگئے ۔ہم اپنے رب سے مُڑگئے اور جدائی کی ا س تڑپ میں ہم نے خود کو ہی اذیت دی،پہلی دفعہ کی ایک اذیت۔ ہمارا یہ کرب اپنے رَب سے جدا ہونے کی وجہ سے تھا ،جس نے ایک گہرا گھاؤ چھوڑا ۔ایک گہرا زخم جس کے ساتھ ہم سب پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ زخم گہرے سے گہرا ہوتا گیا۔رَب کے ساتھ ذہنی،دلی اور روحانی طورپر قریب ہونے کے لیے ہم اس قدر جلد بازبن گئے کہ اپنے علاج سے ہی آگے بڑھ گئے۔کیونکہ ہم عجلت پسند ہیں اور یہ ہماری فطرت ہے کہ ہم آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں اور پھر ہر گزرتے سال کے ساتھ ،اپنے اندر کے خالی پن اور تشنگی کو بھرنے کے لیے ہم زیادہ سے زیادہ بے تاب ہوتے گئے ۔مگرکھوکھلے پن کو بھرنے کی اس جستجو میں ہم پھسل بھی گئے ۔ہم میں سے ہر ایک مختلف طریقوں سے پھسل گیا ۔یہ تشنگی تھی جس کو پورا کرنے کے لیے کچھ لوگ شراب اورنشے میں مبتلاہوگئے جبکہ کچھ حرص و لالچ میں ۔ہم میں سے کچھ لوگ مادی خوشی ،سٹیٹس اور پیسے کی پوجا میں پھنس گئے اور بہت ساروں نے اپنے کیریر کے چکر میں خود کو کھودیا۔

یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہا ،کچھ افراد لوگوں کی محبت میں پھنس گئے اوراس حد تک بڑھے کہ ان کی خاطر اپنے آپ کوہی کھودیا۔مگر کیا ہمارا پھسلنا ،ہماری زندگی کا ہر چیلنج اور تجربے کا مقصد یہی تھا کہ یہ ہمیں اپنی اصلیت کی طرف لے جائے یا کچھ اور؟ہماری ہر ایک جیت ،ہر ایک نقصان ، ہرایک خوبصورتی ، ہر ایک پھسلنا ،غمی اور خوشی اس مقصد کے لیے تھی کہ یہ ہمارے اور رَب کے درمیان موجود ہرایک حجاب کو ہٹا دے؟اور کیایہ سب اس مقصد کے لیے تھا کہ ہم اس مقام تک پہنچ جائیں جہاں سے ہم چلے تھے اور جس کی طرف واپسی کے لیے ہم بے تاب ہیں؟

اگر ہر ایک چیز صرف اس مقام کو پانے ہی کے لیے تھی تو پھر کیا ہوگا؟
 ہوگا یہ کہ ہم یہ بات ضرور جان جائیں گے کہ زندگی میں ہم نے جتنی بھی چیزوں کا سامنا کیا ،ان کا ایک مقصد تھا۔اس مقصد کو اندر کی آنکھ سے دیکھ کر ہی جانا جاسکتا ہے ۔جیسے کچھ لوگوں کے سامنے خوبصورتی موجود ہوتی ہے مگر وہ اس کو پہچان نہیں پاتے۔سورج ڈوبنے کا حسین منظر ہو یا مالٹوں کے دلکش باغات ،وہ کسی بھی منظر سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی آنکھ جب خوبصورتی کو دیکھ لے توبے اختیار اس کی تعریف کرتے ہیں۔وہ رُ ک کراس منظرکو اپنے دِل میں محسوس کرتے ہیں۔یہ خوبصورتی ان کے حواس پر غلبہ پالیتی ہے اور وہ اس خوبصورتی تک ہی محدود ہوجاتے ہیں۔وہ ان قدرتی مناظر کی تعریف توکرتے ہیں ،مگرجس ذات نے یہ سب کچھ بنایا، اس کی جستجو نہیں کرتے۔کوئی بھی شاہکار،اپنے خالق کی طر ف سے ایک پیغام دیتا ہے لیکن اگراس شاہکار کا شوقین انسان صرف اس فن میں ہی کھوجائے تو وہ اس میں موجود پیغام کو نہیں دیکھ سکے گا۔جس کا مطلب یہ ہوگاکہ اس کے شوق نے اسے کچھ فائدہ نہیں دیا ،کیوں کہ وہ حقیقی پیغام تک نہیں پہنچا۔

 یادرکھیں!برسنے والی پہلی برف ،چمکتے سور ج ،دمکتے چانداور سانس لیتے سمندر کا مقصد فقط اس زمین کو خوبصورت بنانا نہیں بلکہ اس کا مقصدکچھ اور ہے جو کہ بہت گہرا ہے اور جس کو اللہ رب العزت قرآن میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے :
 ’’بے شک زمین و آسمان کے بنانے اور رات و دِن کے آنے میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔وہ لوگ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، کھڑے او ر بیٹھے اور کروٹ لیٹے اور زمین وآسمان کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں (کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘(سورۃ آل عمران:190-191)

ٍ کائنات میں موجود ان تمام خوبصورتیوں کو نشانی کے طورپر پیدا کیا گیا ہے مگر ان کو صرف ایک ہی جماعت سمجھ سکتی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں، اپنی عقل و دانش کا استعمال کرتے ہیں اور ہر حالت (کھڑے ،بیٹھے اورلیٹے )میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

 غروب ہوتے سورج کی دلکشی کو ہر انسان دیکھتا ہے لیکن ہمیں اس سحر انگیز خوبصورتی کے پیچھے کی اصل خوبصورتی کو دیکھناہے ۔کائنات میں بکھرے رنگ اور حسن جو ہمیں نظر آرہا ہے درحقیقت یہ ایک عکس ہے اور اصل خوبصورتی اس کے پیچھے ہے۔اسی خوبصورتی سے تمام خوبصورتیاں نکلتی ہیں۔
 اس اصلی پیغام تک پہنچنے کے لیے ہمیں روشن ستاروں ،سرسبز و شاداب درختوں اوربرف سے ڈھکے پہاڑوں کے بارے میں غور وفکرکرنا چاہیے۔اپنی زندگی میں اگر ہم نے اس مقصد کو نہیں پایا تو ہماری مثال اس شخص کی طرح ہوگی جس کے سامنے ایک خوبصورت سجاہوا ڈبہ پیک موجود ہو ،وہ اس کی ظاہری خوبصورتی سے بے حد متاثر ہوجائے لیکن اس کو کھول کر اس میں موجود پیغام کو نہیں پڑھتا۔

 سوال یہ ہے کہ یہ پیغام آخر ہے کیا ؟ستارے مضبوطی سے قائم ہیں ،موج در موج سمندر اور سبزے سے بھرپور جنگل اس زمین کے حسن میں اضافہ کررہے ہیں لیکن یہ سب آخرکس چیز کی نشانیاں ہیں؟
 جواب یہ ہے کہ یہ اس ذات کی کبریائی، عظمت ،قدرت و طاقت اور خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ضرورت ہے تو فقط اس بات کی کہ ان چیزوں کا مطالعہ کیا جائے ،اس عکس کوڈھونڈا جائے ،خوبصورتی او ر حسن کا مشاہدہ کیاجائے جو انسانوں کے لیے پیدا کیاگیا ہے ،مگر یہاں رُکنا نہیں۔اپنے آپ کو اس خوبصورتی میں کھونے نہیں دینا ۔اس کے پیچھے دیکھنا او ر غور کرنا ہے کہ ایک تخلیق جب اتنی شاندار ،جاذب نظر اور حسین ہے تو اس کا خالق بھی یقینا عظمت وکبریائی والا اورحسین وجمیل ہوگا۔یہاں پہنچ کر قرآن کریم کی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
’’اے ہمارےرب تو نے کچھ بھی بغیر کسی مقصد کے پیدا نہیں کیا ،تو پاک ہے۔‘‘ (سورۃ آل عمران:191)
 زمین وآسمان ،جنت و جہنم اور میرے و آپ کے اندر ایسا کچھ بھی نہیں جو بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا گیا ہو ۔زندگی کا ہر ایک واقعہ ،خوشی وغمی اورتکلیف وراحت کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہے۔یہ سب ہمارے سامنے اس خوبصورت سجے ہوئے پیک ڈبے کی طرح ہیں ۔جب ہم اس کو کھول کر اس میں موجود پیغام کو پڑھیں گے تو زندگی میں قدم قدم پراپنے رب کی کبریائی اور عظمت کو پائیں گے۔

 ہم ہمیشہ نشانیوں کو تلاش کرتے ہیں،حالانکہ تمام نشانیاں ہمارے اِردگردموجود ہیں ۔ہم ہمیشہ اپنے رب سے خواہش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ بات کرے۔رَب توہمیشہ بولتا ہے مگرسوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کے فرمان کو سنا؟قرآن کریم میں اس کا اظہار کچھ یوں کیا گیا ہے:
 ’’اوربے علم (لوگ)کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے کیوں کلام نہیں کرتا یا ہمارے پاس اس کی کوئی نشانی کیوں نہیں آتی ۔ان سے پہلے لو گ بھی ایسی باتیں کہہ چکے ہیں ،ان کے دِل ایک جیسے ہیں ،یقین کرنے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں بیان کرچکے ہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ:118)

 ہمارے ساتھ زندگی میں جو کچھ ہورہا ہے ،وہ تمام کام جو ہم نے مکمل کرلیے یاہم سے نہ ہوسکے اگر ہم ان کو معنی دیں اور ان سب کے پیچھے اپنے رب کو دیکھ لیں تو ہم اپنے مقصد کو پالیں گے ۔آپ کی ہر وہ خواہش جس کے پوری ہونے کے لیے آپ بے قرار ہیں جب وہ پوری ہوجائے تو پھراس وقت دھیان رکھیں او ر اس نکتے کو بھول نہ جائیں کہ ہر ہونے والے کام کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔اب آپ پر لازم ہے کہ اس مقصدکو تلاش کریں۔کام کے اس جوہر کا کون سا پہلو ہے جس میں آپ کو اپنا رب دکھائی دے رہا ہے؟آپ کا رب اس وقت آپ سے کیا چاہتا ہے؟
 اسی طرح جب زندگی میں کوئی ناپسندیدہ واقعہ ہوجا ئے جو کہ آپ کوغم اوردُکھ دے دے تو اس وقت بھی دھیان رکھیں ۔ اس نتیجے کو ضائع نہ کریں جو اس درد سے پیدا ہوا۔اس کو استعمال میں لائیں اوررَب کے پیغام کو تلاش کریں۔اپنامقصد تلا ش کریں ۔اپنے اس غم اور دُکھ کو اجازت دیں کہ وہ رَب کی جھلکیوں کی طرف آپ کی رہنمائی کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہی دُکھ یا غم آپ کو آپ کے اصل مقصد سے ملادے۔

اگر آپ کو لگے کہ آپ کبھی زندگی میں پھسل چکے ہیں تو شیطان کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کودھوکہ دے دے ۔اپنے اس پھسلنے اور گرجانے کو دکھائیں کہ آپ کا رَب کتنا غفور ورحیم ہے۔اس کے بعد رَب کے معافی کو تلاش کریں تاکہ وہ آپ کو اپنی رحمت و مغفرت کی چادر میں لے کران گناہوں اور سرکشی سے محفوظ بنادے جوآپ کو گمراہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔مشکل حالات اورحل نہ ہونے والے مسائل میں مایوس مت ہوں۔رَب کے صفاتی نام میں ایک نام ’’الفتاح‘‘ (کھولنے والا) بھی ہے ۔ا س کی ایک جھلک کا مشاہدہ کریں۔وہ ذات جو اپنے بندے کے لیے ہر بند راستہ کھولتی ہے ۔اگرکوئی طوفان ہے تو اپنے آپ کو اس میں ڈوبنے نہ دیں ۔اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ کیسے میرے رَب نے اپنے ایک بندے کو طوفان سے بچایا تھا ،جب اِردگردکوئی بھی سہارا نہیں تھا ،اور اس تمام کے بعد یہ با ت یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ ختم ہوجانے والا ہے ۔کچھ بھی نہیں بچے گا صرف اس ذات کے علاوہ ۔وہ دِن جب اللہ کہے گا :’’آج کس کی بادشاہی ہے ؟‘‘اللہ پوچھے گا:
’’جس دن وہ سب نکل کھڑے ہوں گے ،اللہ پر ان کی کوئی بات چھپی نہ رہے گی ،آج کس کی بادشاہی ہے ،اللہ ہی کی جو ایک بڑا غالب ہے۔‘‘
(سورۃ الغافر:16)

آج کس کی خودمختاری ہے اور کس میں قوت ہے کہ ایک ذرے کو بھی لے آئے؟آج کس کا غلبہ ہے ؟اس کے سوا کون سی طاقت ہے جو آپ کو بچالے ؟اس کے علاوہ کون آپ کا علاج کرسکتا ہے؟اس کے علاوہ کون آپ کے دِل کو درست کرسکتا ہے؟اس کے علاوہ کون آپ کو نعمتیں فراہم کرسکتا ہے ؟اس کے علاوہ کون ہے جس کی طرف آپ لوٹیں گے؟کون ہے آج کے دن بادشاہت اور غلبے والا ؟لمن الملک الیوم؟ 
للہ الواحدالقہار۔۔ وہ ایک ذات ،ناقابل تسخیر ذات۔ہر فنا ہونے والی چیز جس کی طرف لوٹتی ہے ۔اس کے علاوہ کسی اور کی تلاش ہمیں توڑ تودیتی ہے ،جوڑتی کبھی نہیں۔ہم خود کو کیسے جوڑیں؟اپنی دِلی، ذہنی اور روحانی تشنگی کی تکمیل کے لیے ہم کس کو ڈھونڈیں؟صرف ایک ہی ذات ہے جو ہمارے تمام دُکھوں کا مداوا ہے اور ہمارے کھوکھلے پن کو بھرنے والا ہے۔اسی کے دَر پر سر رکھ ہی ہم اپنے خالی پن کو پورا کرسکتے ہیں۔

 لہٰذا ہمیں اسی مقام کی طرف واپس آناہے جہاں (جنت)سے ہم نے آغاز کیا تھا ،کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔اس مقام کو پاکر ہم اپنی ذات کومکمل کرلیں گے ۔اپنی روح کو سرشار کرلیں گے اور ہم کہہ سکیں گے کہ ہاں !
’’ ہم اپنے حسین مسکن میں ہیں۔‘‘

Post a Comment

0 Comments