پُر اثر شخصیت
بڑا انسان وہ ہے جس کی محفل میں کوئی خود کو چھوٹا محسوس نہ کرے۔ ہر چیز اپنے ہونے کا ثبوت دیتی ہے ، جیسے ایک چھوٹا ساذرہ آنکھ پھوڑ کر اپنے ہونے کا ثبوت دے سکتا ہے۔ اسی طرح ہر چیز اپنی موجودگی کا اظہار کرتی ہے، اور انسان اپنی شخصیت سے اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے۔ انسان کی شخصیت کا اس کی بات چیت اور انداز و اطوار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کا انسان ہے۔ بہت سے لوگ اچھا ہونے کے باوجود اپنے آپ کواچھے انداز میں پیش نہیں کرپاتے۔ جبکہ بہت سے لوگ اتنے اچھے نہیں ہوتے لیکن اپنے آپ کواچھا پیش کرنا جانتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اچھے بن جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو اچھے انداز میں پیش کرنا ایک آرٹ ہے ۔ جن کو یہ آرٹ آتا ہے ان کی پوزیشن دوسروں سے بہتر ہوتی ہے۔ اس دنیا میں قیادت کی مختلف اقسام ہیں اور ان اقسام میں سب سے بہترین لیول متاثرکن قیادت کا ہے جومتاثر کن شخصیت سے ممکن ہے ۔ متاثرکن قیادت پُراثر شخصیت سے بنتی ہے۔ انسان کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو اس کی سوچ ہے اور سوچ مثبت ہو تو شخصیت بھی مثبت ہو تی ہے۔ اگر سوچ منفی ہو توشخصیت بھی منفی ہوتی ہے۔ اگر سوچ کا بیج نہ ہو تو بہترین انسان ہونے کے باوجود بندہ صفر ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں بدھاکہتا ہے :
’’تم وہی ہو جو تمہاری سوچیں ہیں۔‘‘
اس کے بارے میں حضرت واصف علی واصف ؒفرماتے ہیں:
’’ جو تمہار ا خیال ہے، وہی تمہارا حال ہے۔‘‘
دنیا کی تاریخ میں جتنے بڑے نام ہیں اُنہیں شہرت اپنے ہی کسی نظریے سے ملی، اصل میں وہ کسی سوچ کا نام ہیں۔سقراط کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ زہر کا پیالہ پیتا اور مسکرا کر کہتاہے میں تو مر رہا ہوں لیکن میری سوچ کبھی نہیں مر سکتی۔ اسی طرح جس کویہ یقین ہوجائے کہ میری سوچ نہیں مر سکتی ،وہ شخص زندہ ہو جاتاہے۔ سوچ ایک سے دوسرے تک اور بالآخر نسلوں میں منتقل ہوجاتی ہے اورافکارِ تازہ سے نمو پاتی ہے۔ اگر افکارِ تازہ نہ ہوں تو زندگی ایسے تالاب کی مانند ہو جاتی ہے۔ جہاں پانی عرصہ دراز تک رُکا رہنے سے بدبو دار ہوجاتا ہے۔ پرُاثرشخصیت کو اپنی ذات پر اعتماد ہوتا ہے۔خود پر اعتماد ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں بدھا نے کہا تھا کہ:
’’جس نے خود پر اعتماد کیا، زمانہ اس کے سامنے سرنگوں ہوجاتا ہے۔‘‘
پُر اثر شخصیت کا اپنی ذات پر پختہ یقین ہوتا ہے اور جو شخص یقین کے ساتھ قدم اُٹھاتا ہے ،منزلیں اُس کا استقبال کرتی ہیں۔ویلیم جیمز کا کہنا ہے کہ:
ــ ـ’’ہماری زندگی میں یقین کا بہت زیادہ کردار ہے کیونکہ یقین سے نتائج بنتے ہیں۔ ‘‘
اکثرانسان کو ہر چیز پریقین ہوتاہے لیکن اُسے خود پر یقین نہیں ہوتا۔ اُسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ محنت کا صلہ دینے والاہے۔ہر انسان میں ایسی چیز ضرور ہونی چاہیے جو یہ یقین پیدا کرے کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔انسان کا یقین اُس وقت پختہ ہوتا ہے جب وہ کسی سے متاثر ہوتا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔
پرُاثرشخصیت فیصلہ ساز ہوتی ہے۔ لمحہ موجود میں بندہ جس حال میں ہوتا ہے وہ ماضی کے فیصلوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر فیصلے درست ہوں تو بندہ مطمئن اور خوش ہوتا ہے اور اگر فیصلے غلط ہوں تو بندہ پریشان ہوجاتا ہے۔ ماضی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اگر کوئی نقصان اُٹھا رہا ہے تو اسے ضرور غور کرنا چاہیے کہ اس کے فیصلے شعوری تھے یا لاشعوری، کسی کی ہاں میں ہاں ملائی گئی تھی یاکسی دوسرے کی بات پر عمل کیا گیا تھا۔ بہت سے لوگوں کے پاس قوتِ فیصلہ نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے انہیں زندگی میں بار بار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کی عمرستر سال ہو جاتی ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پاتے اور بروقت صحیح فیصلے نہ کرسکنے کی وجہ سے وہ زندگی بھر اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں۔یہ مثال مشہور ہے کہ ایک دفعہ چند شیروں کو جنگل سے اُٹھا کرپنجروں میں ڈال دیا گیا اور وہیں پر ان کی افزائش کاساما ن بھی کیا گیا۔ بچے پیدا ہو کر جوان ہوئے تو انہیں جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔ ایک دو دن بعد معلوم ہوا کہ ان کو جنگلی کتوں نے کھا لیاہے۔ تحقیق کی گئی تومعلوم ہو ا کہ پنجرے کی قید نے ان سے شکار کی صلاحیت چھین لی۔ آج ایساہی ہم اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ لاڈ پیار کی وجہ سے ان کی قوتِ فیصلہ کمزور ہو جاتی ہے۔ جب زندگی میں کوئی فیصلہ کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ دوسروں کی طرف دیکھتے اور اُنہی کی رائے پر عمل کرتے ہیں اور قوتِ فیصلہ کمزور ہونے کی وجہ سے وہ کبھی پرُاثر شخصیت نہیں بن پاتے۔
انداز اور طور طریقے انسان کی شخصیت کو پرُ اثر بناتے ہیں۔زندگی کے ہرشعبے میں کام کرنے کے طریقے ہیں ۔ان میں کھاناپینا بہت اہم ہے۔ہمارے مذہب میں سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں۔ ایک دایاں اور ایک بایاں، دایاں حصہ مثبت ہوتا ہے جبکہ بایاں حصہ منفی۔آج کی جدید تحقیق یہ کہتی ہے کہ’’ ہمارے دماغ کا مثبت حصہ تب زیادہ حرکت کرتا ہے جب سیدھے ہاتھ سے کھانا کھایا جائے۔‘‘ سیدھے ہاتھ سے کھاناکھانے سے دماغ کی مثبت توانائی غذا پراثرانداز ہوتی ہے۔ جو جسم کے لیے فائدہ مند ہے۔ہمارے ہاں بائیں ہاتھ سے بھی کھانا کھایا جاتا ہے جو غیر مہذب طریقہ ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی۔سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانے اور تہذیب سے کھانے میں شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ آج کل پارٹیوں میں لوگ اپنی پلیٹوں کو مکمل بھر کر انتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ طبیعت کے مطابق مناسب کھاناڈالنا اور اچھے انداز میں کھاناجیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں شخصیت کو پُراثر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اسی طرح مہذب اور صاف ستھر ا لباس بھی پُراثر شخصیت کی علامت ہے۔ آج ہمارے ہاں عجیب وغریب لباس کو فیشن کا نام دیا جاتا ہے۔ پُر اثر شخصیت کا لباس اپنے پروفیشن کے مطابق ہوتا ہے۔ پروفیشن کے مطابق لبا س پہننے والے کو لوگ دیکھ کر بھی اچھا محسوس کرتے ہیں۔کیونکہ کسی بھی شخصیت کا دیکھنے والا پہلو سب سے پہلے سامنے آتا ہے۔ لوگ بات کرنے سے پہلے ہی لباس کو دیکھ کر انسان کی شخصیت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ لہٰذا لباس کے ذریعے دیکھنے والوں کو اپنا ’’دی بیسٹ‘‘یعنی بہترین دیں۔
ہمارے ہاں شخصی بہتری پر کام نہ ہونے کے برابرہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کی شخصی تربیت پر کام نہیں کر رہے۔ بچوں کو انٹرویو دینا،لباس پہننااور گفتگو کرنا نہیں آتا۔ بچوں کی اکثریت کو سوال کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ وہ سوال کرتے ہوئے ایسے لگتے ہیں جیسے لڑ رہے ہوں۔ سوال کرنے، بات کرنے اوراپنی رائے کے اظہار کا ایک انداز ہوتا ہے۔ دیگر ممالک میں شخصی بہتری پر بہت کام کیا جا چکا ہے ۔ اس حوالے سے ڈیل کارنیگی کا نام بہت اہم ہے ۔ اس کی کتابوں کاساٹھ سے زائدزبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں ایساکام نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ شخصی بہتری پر لکھی گئی کتابوں سے استفادہ کر کے بھی شخصیت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment