Yaqeen ka Rasta/GENERAL ARTICLES

گیان دھیان
’’جب آپ یقین کرنا شروع کریں گے تو آپ کا ذہن اس کے حصول کے راستے تلاش کرنا شروع کردے گا!‘
(ڈیوڈ جے شوارٹز)

Chess, Pawn, King, Game, Tournament, SUCCESS

زندگی میں بے شمار حقیقتیں ایسی ہیں جن سے ہم باخبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ بعض لوگ آنکھوں کے اندھے اور کانو ں کے بہرے ہیں۔ آپ کو اپنے گرد ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سن رہا ہے لیکن نہیں سن رہا، وہ دیکھ رہا ہے لیکن نہیں دیکھ رہا ،اس کے کان ہیں جس سے وہ سنتا نہیں ہے، اس کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتا نہیں ہے۔ زندگی کی بے شمار حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمار ی اطلاع اور خبر میں تو ہوتی ہیں، لیکن ’’یقین‘‘ میں نہیں ہوتیں۔ مثلاً، جب ایک آدمی کے اندر کچھ کرنے کی صلاحیت ہے، مگر وہ اس کا یقین نہیں رکھتا کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ چنانچہ وہ اس صلاحیت و مہارت کے باوجود یہ کام نہیں کرپائے گا۔ آپ موٹر سائیکل چلانے کی مثال لے لیجیے۔ آپ جانتے ہیں کہ تقریباً ہر نوجوان موٹر سائیکل چلا لیتا ہے۔ لیکن، چند نوجوان ایسے ہیں جو موٹر سائیکل نہیں چلاپاتے۔ ان میں زیادہ تر وہ ہوں گے جنھوں نے موٹر سائیکل چلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کیوں؟ آپ اُن سے پوچھیں تو پتا چلے گا کہ انھیں یہ یقین ہی نہیں کہ وہ موٹر سائیکل چلاسکتے ہیں۔

I can`t کا یقین آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ جو لوگ اس یقین کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، اُن کیلئے آسان کام کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
اسی طرح، موت کا پتا ہے۔ ہم سب دن رات مشاہدہ کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والا ہر فرد مرنے کیلئے آیا ہے، لیکن ہمیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ مجھے بھی مرنا ہے۔ لہٰذا، اس یقین کی کمی زندگی میں موت کی تیاری سے مانع رہتی ہے۔
ماہرین نفسیات اور ماہرین روحانیت دونوں اس پر متفق ہیں کہ انسان کو اس حقیقت کا احساس بہت ہی خال ہوتا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں نہیں رہنا، یہاں سے بہت جلد چلے جانا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں او رسب کیلئے یہ مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر، دولت مندوں کے پاس مال و دولت کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کی یہ سوچ بن جاتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔ بعض اوقات بہت زیادہ ماہر فن بھی اس مغالطے میں رہتا ہے کہ وہ اپنے علم کی بدولت موت سے بچ سکتا ہے یا کم از کم اپنی موت کو پیچھے ضرور دھکیل سکتا ہے۔ لیکن، مستثنیات موجود ہیں۔ سدھارتھا (گوتم بدھ) اپنے ملک کا شہزادہ تھا۔ اس کے پاس مال ودولت سب کچھ تھا۔ اٹھائیس سال کی عمر میں وہ اپنی فوج کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک جنازہ دیکھا۔ اس نے پہلی مرتبہ کوئی جنا زہ دیکھا تھا۔ اس نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ جواب ملا، یہ زندگی کا آخری سفر ہے۔ اس نے کہا، اچھا اگر یہ زندگی کا آخری سفر ہے تو میں کون سے سفر پہ ہوں؟ اس نے اسی وقت بادشاہت چھوڑی، محل چھوڑا اور نکل گیا۔ کافی عرصے بعد جب وہ واپس لوٹا تو بدل چکا تھا۔ اسے پتا چل چکا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے، آخر کا ر اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ پھر کیوں ناں اس سفر کی پہلے ہی سے تیار ی کرلی جائے۔ بدھا کو سمجھ آگیا تھا کہ اگر خواہشوں کو نکال دیا جائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ اس نے کہا، خواہشیں تکالیف پیدا کرتی ہیں۔ اگر انھیں اپنی زندگی سے نکال دیا جائے تو تکالیف خود بہ خود ختم ہوجائیں گی۔

ہر واقعے کا ایک اصل ہوتا ہے۔ اس اصل تک جانے کے عمل کو ’’گیان‘‘ کہتے ہیں۔ آئنسٹائن کہتا ہے کہ انسان کی کوئی تعریف نہیں، یہ جنس اور چند عادتوں کا نام ہے۔ انسان کچھ عاد تیں وراثت میں لے کر آتا ہے اور کچھ عادتیں اس دنیا میں آنے کے بعد اپناتا ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت تک پہنچ جائے تو یہ گیان ہے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے کہ جن کی عمرستر سال سے زائد ہو جاتی ہے، لیکن انھیں گیان نہیں ملتا۔اس کے برخلاف، ایسے افراد بھی ہیں جنھیں چھوٹی سی عمر میں ہی گیان مل جاتا ہے، جیسے محمدؒ بن قاسم جن کی غیرت چھوٹی عمرمیں جاگ گئی۔ سکندر اعظم نے بتیس سال کی عمر میں آدھی دنیا کو فتح کرلیا۔ 74 برس کی عمر میں ایڈیسن کی لیباٹری کو آگ لگی لیکن اس نے اس کے باوجود زیادہ ایجادات کیں۔ وہ کہتا تھا کہ جو جل گیا ہے، وہ میرے کام کا نہیں تھا۔ اب قدرت مجھ سے وہ کام کرائے گی جو میرے کرنے کے کام ہیں۔ یہ گیان ہے۔ بعض اوقات حادثے کا گیان ہوتا ہے۔ زندگی میں چھوٹے چھوٹے حادثات گیان دے دیتے ہیں۔ ان سے آدمی میچور اور پختہ کار ہوجاتا ہے۔

بسا اوقات آدمی صوفی کے پاس دنیا لینے جاتا ہے اور دنیا دار کے پاس دین۔ آپ کو فیصلہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنی اس چھوٹی سی زندگی میں دنیا کمانا سیکھنا ہے یا روحانیت۔ زندگی میں کبھی آنکھ زیادہ کام کرجائے تو نظارہ بدل جاتا ہے اور زبان خاموش ہوجاتی ہے۔ جن لوگوں کی زبان تیز چلتی ہے، وہ دیکھ ہی نہیں پاتے کہ سامنے والا سننا بھی چاہتا ہے یا نہیں۔ لازم نہیں ہے کہ ایک آدمی جس کو ایک شعبے میں بہت زیادہ گیان حاصل ہے، اسے دوسرے شعبے کا بھی گیان ہو۔شعبہ بدل جائے تو گیان بھی بدل جاتا ہے۔

قدرت آپ سے کام لینا چاہتی ہے
جن لوگوں کو زندگی کا گیان حاصل ہوتا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ یہ تب پیدا ہوتا ہے کہ جب قدرت نے اپنے بندے سے کوئی کام لینا ہو۔ اگر آپ کو اپنی، اپنے وقت کی اور اپنی زندگی کی قدر آ گئی ہے تو پھر آپ کو مبارک ہو۔ یہ گیان کی علامت ہے۔
اس احسا س کو سنبھالنا اور پالش کرنا، اسے کام میں لانا بہت بڑی بات ہے۔ اگر کسی عام ماہر نفسیات کے پاس چلے جائیں، اس سے اس احساس کے متعلق بات کریں تو وہ کہے گا کہ یہ نفسیاتی عارضہ ہے، حالانکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔یہ احسا س کہ میری زندگی برف کی طرح کم ہورہی ہے اور اسے ختم ہوجانا ہے، بہت سمجھ داری کی علامت ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’موت کو تکیے کے نیچے رکھ کر سویا کرو۔‘‘ موت کو یاد کرنے کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی وقت ضائع نہیں کرتا۔ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو پلان کرتا ہے، اپنے کام پر فوکس کر تا ہے اور کامیاب ہوجا تا ہے۔

زندگی کی برف
زندگی میں جب یہ احساس پیدا ہوجائے کہ زندگی برف کی طرح ہے تو اس احساس پر بھی اللہ کا شکر ادا کیجیے۔ اس شکرانے کے بعد دوسرا کام یہ کیجیے کہ اپنی زندگی کا مقصد طے کیجیے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ ’’جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، وہی تمہارے خیال کو بھی پیدا کرتا ہے۔‘‘ اگر یہ نکتہ سمجھ آجائے تو زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے۔ہمیں عموماً یہ احساس تو مل جاتاہے، لیکن کام میں لانا نہیں آتا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جب یہ احساس پیدا ہو تو فوری طور پر سجدے میں سر رکھ لینا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ، تو نے مجھے یہ احساس تو دے دیا ہے، اب ہمیں اس کو کام میں لانا بھی سکھا دے۔ یہ احساس جب بھی پیدا ہو جائے، مالک کائنات کے دَر پہ چلے جائیے، کیو نکہ احساس کی چٹھی اس نے بھیجی ہے، اس لیے اس کے سامنے آنسو بہائیے اور التجا کیجیے کہ میرے مالک، میر ی زندگی برف کی طرح پگھلتی جا رہی ہے، اس سے پہلے کہ یہ ختم ہوجائے، ایک مہربانی یہ کر دے کہ اس احساس کو ٹھکانے لگا دے۔ اس کو کسی نتیجے پر پہنچا دے۔ میری بے مقصد زندگی کو بامقصد زندگی بنا دے۔ یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کبھی رَد نہیں کرتا۔

کئی اساتذہ، کئی رنگ۔۔۔ بے رنگ
بعض اوقات آدمی کسی استا د کے پاس جاتا ہے اور وہ گائیڈ کر تا ہے جس کی وجہ سے سرخ رنگ چڑھتا ہے۔ پھر وہ کسی اور استاد کے پاس جاتا ہے تو وہ بھی گائیڈ کرتا ہے جس کی وجہ سے اس پر سفید رنگ چڑھ جاتا ہے۔ پھر تیسرے استاد کے پاس جاتا ہے تو سرمئی رنگ چڑھتا ہے۔ اسی طرح، مختلف اساتذہ کے پاس جاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس پر نہ سفید رنگ چڑھتا ہے اور نہ سرخ اور سرمئی رنگ۔ یہ فیصلہ کیجیے کہ اپنے اوپر کون سا رنگ چڑھانا ہے۔ اپنے اوپر رنگ چڑھانے کیلئے بہت سادہ فارمولا ہے کہ آپ تیرہ قسم کی شخصیات کو اپنے سامنے رکھیے اور دیکھئے کہ ان میں کون سی شخصیت آپ کی شخصیت اور مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ پھر جو شخصیت آپ کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اسی کا رنگ چڑھا لیں۔ آپ کامیاب ہوجائیں گے۔
دو کشتیوں میں سوار ہونے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ وہی مسافر اپنی منزل پر پہنچتا ہے جو ایک کشتی پر سوار ہو اور ایک راستے کا مسافر۔ آپ جس شعبے میں جانا چاہتے ہیں، جو کیرئیر اختیار کرنا چاہتے ہیں، جو کام کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح کے مشاہیر اور معروف لوگوں کی سوانح پڑھیے، اُن کی سرگزشت جانیے۔ آپ کو اُن کی زندگیوں سے رہ نمائی ملے گی۔ ہم مزاج ماہرین سے ملئے اور اُن کی صحبت کو کہ جب تک وہ اس دنیا میں ہیں، غنیمت جانئے۔ اُن سے زیادہ سے زیادہ فیض اٹھائیے۔ اس مطالعے اور مشاہدے سے آپ کو آگے بڑھنے اور زندگی میں کچھ غیر معمولی کرنے کی تحریک پیدا ہوگی۔

Post a Comment

0 Comments