بچوں کی تربیت میں والدین کی غلط فہمیاں
کیاآپ کو معلوم ہے کہ برطانیہ نے اس سال اپنے نصابِ تعلیم میں کون سی نئی چیز شامل کی ہے؟ شاید آپ جان کر کچھ حیران ہوں۔در حقیقت کسی بھی معاشرے اور قوم کی ترقی میں ان کی پالیسیاں نہا یت اہم کردار اداکرتی ہیں۔ "برطانیہ نے اس سال کی تعلیمی پالیسی میں ’’مائنڈ فٹنس‘‘ کا مضمون شامل کیا ہے" جو کہ 370اسکولز میں لگ چکا ہے اور پانچ سو کے قریب ماہرین اور ٹرینرزتعلیمی اداروں میں تربیت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں بچوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو ڈیپریشن اور ذہنی دباو کا شکار ہے اور اس ڈیپریشن کی وجہ سے ان کا اپنے والدین سے تعلق کمزور ہوتاجاتاہے۔کوئی بھی انسان اگرذہنی طورپر صحت مند نہ ہو تو اس کا سب سے زیادہ اثر حقیقی رشتوں پر پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے ان کو کھودیتا ہے۔حقیقی رشتوں میں والدین کا رشتہ ہی وہ رشتہ ہے جس کے ساتھ بچے کا غیر معمولی تعلق ہوتا ہے اور اس لحاظ سے بچے کی تربیت کی ذمہ داری بھی والدین پرہوتی ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ جہاں نفع نقصان کی بات آتی ہے وہاں وہ اچھے رویے کا مظاہرہ کرتا ہے، جیسے پہلی تاریخ کی تنخواہ یا باس کو خوش کرناوغیرہ وغیرہ ،جبکہ’’ پیرنٹنگ‘‘ میں والدین بھرپور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ،شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس کا نتیجہ فوری نہیں ملتابلکہ اس میں بیس تیس سال کا عرصہ لگتاہے اوراسی وجہ سے بچوں کی تربیت میں والدین سے چند بنیادی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ۔درا صل یہ ان کی کم فہمی یالاعلمی ہوتی ہے لیکن۔۔ چونکہ ’’پیرنٹنگ‘‘ ایک حساس اورذمہ داری ہے اس لیے آج کی نشست میں ہم والدین کی ان غلطیوں کی نشاندہی کرکے ایک مثبت لائحہ عمل دینے کی کو شش کریں گے۔
والدین اپنے بچوں کوچند چیزوں سے ماپتے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1)تابعداری:
والدین بچوں کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ ان کی تابعداری دیکھ کرکرتے ہیں۔تابعداری اچھی عادت ہے لیکن والدین نے اگر تابعدار ی کے نام پر بچے کو ذہنی اور شعوری طورپر مفلوج کیا ہو اہے تو پھر یہ خطرناک چیز ہے۔کسی کی اقتدا کرنا اچھی بات ہے مگرسوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت استعمال کیے بغیر کسی کے پیچھے چلنا ، انتہائی نقصان دہ ہے۔ بعض اوقات والدین بچوں سے تابعداری مانگتے مانگتے ان کی قوتِ فیصلہ ہی چھین لیتے ہیں ۔والدین اگر اپنے بچوں کو اعتماد نہ دیں اور وہ ہر معاملے میں دوسروں کے محتاج ہوںتو اس کا مطلب ہے کہ والدین نے زیادتی کی ہے کہ بچے کو اپنا اس قدر تابعدار بنایا کہ اس کی قوتِ فیصلہ ہی ختم ہوگئی۔
دراصل بچوں سے تابعداری اس لیے بھی مانگی جاتی ہے کہ والدین اپنے ادھورے خواب بچوں کی رُوپ میں پورے کرنا چاہتے ہیں۔ والدین کاادب و احترام فرض ضرور ہے مگر ان کی عقل مندی یا تجربے کی وجہ سے نہیں بلکہ مرتبے و شرف کی وجہ سے۔ایسا ممکن ہے کہ آج کل کے جدید دور کے مسائل کو وہ درست انداز میں نہ سمجھ سکیں ۔ایک بہترین انسان وہی ہوتا ہے جو ا س نکتے کو سمجھ لے۔وہ پھر اپنے والدین کو بھرپور عزت دیتا ہے اورخوب صورت انداز میں ان کو بتاتا ہے کہ آپ کا مقام و مرتبہ بہت بڑا ہے مگر جو میں کرنے لگاہوں اس کا آپ کوعلم نہیں یا یہ آپ کی فیلڈ نہیں،لیکن اگر کسی شخص نے یہ باریک نکتہ نہیں سمجھا تو پھر وہ کہے گا کہ’’ باپ کی گستاخی جہنم میں لے کر جائے گی۔ ‘‘اور یوں وہ والدین سے وہ چیزیں بھی پوچھے گا جو ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہیں اور یوں بلاوجہ وہ ان کو پریشان کرے گا۔
(2)اسکول نمبراتـ:
والدین کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کامیابی کو نمبروں سے ماپتے ہیں ۔دنیا کا سب سے بڑا دھوکا’’ زیادہ نمبر لینا ‘‘ہے۔نمبروںسے ناپنے کا مطلب ہے کہ والدین ایک ہی ذہانت یعنی ’’رٹالگانے ‘‘ سے بچوں کو جانچ رہے ہیں ،حالانکہ جدید تحقیق کے مطابق ذہانت صرف نمبر لینا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی ہیں، جن کی تعداد 10ہے۔
نمبرلیناایک آرٹ (فن) ہے جس کے د وبنیادی طریقے ہیں ۔(1)(Method) یاد کرنا (2)(Presentation) پرچہ حل کرنا
یہ دوکام جس بھی بچے کو آتے ہوں وہ زیادہ نمبر لے لیتا ہے ۔میری اپنی خواہش ہے کہ بحیثیت والدین ہم بچوں کے لیے نمبر لینا آسان بنادیں ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ سبق یادکرنے کے چند طریقے اور پریزنٹیشن اسکلز سکھادیں تو ان کی زندگی آسان ہوجائے گی ۔اس طرح کے بچے پڑھائی اور نمبر میں کچھ مخصوص انرجی لگانے کے بعد اپنی باقی صلاحیتیں مختلف طرح کی سرگرمیوں اور تخلیقی کاموں میں لگاسکیں گے۔والدین اپنے بچوں کو یہ نکتہ نہیں سمجھاتے اور پھر بچوں کا سب سے بڑا مقصد ہی یہ بن جاتا ہے کہ بس زیادہ نمبر لینے ہیں۔انہیں نہ پریزنٹیشن آتی ہے اورنہ سبق یاد کرنے کا طریقہ، اسی طرح والدین بھی بچے کے لیے ٹیوشن ، اکیڈمی اور ہر طرح کے انتظامات اس لیے کرلیتے ہیں تاکہ وہ زیادہ نمبر لے اور اچھے ادارے یا کالج میں ایڈمیشن ہوجائے ۔یہ دونوں چیزیں معاشرے کا رواج بن چکی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کمال نہیں ،زوال ہے۔
والدین کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آج جوبچہ زیادہ نمبر لے رہا ہے وہ آج سے 20سال بعد کہاں ہوگا؟بالفرض ،آج کا زیادہ نمبر لینے والا بچہ اگر زندگی میں فیل ہوگیاتو پھر زیادہ نمبر لینے کا فائدہ؟میرا مقصدیہ ہر گز نہیں کہ نمبر نہیں لینے چاہیے ، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچوں کو صرف اور صرف نمبر وں کے پیچھے لگاتے ہیں۔جب والدین کامحلِ نظر’’ زیادہ نمبرلینا‘‘ہوگاتو پھرتربیت کی اصل روح باقی نہیں رہے گی ۔تربیت نہ ہونے سے بچوں کی آئندہ زندگی بہت متاثر ہوگی۔
(3)دوسروں کی نظر سے بچے کو تولنا:
والدین کی تیسری غلطی یہ ہے کہ وہ بچوں کو اچھاتب سمجھتے ہیں جب باقی سب لوگ بھی کہہ دیں کہ کیا کمال کابچہ ہے۔وہ اپنے بچوں کو دوسروں کی عینک سے دیکھتے ہیں جوکہ اصولاً غلط ہے ۔ہاں یہ ایک خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ لوگ آپ کے بچے کے بارے میں اچھی رائے رکھیں۔یادرہے کہ لوگوں کی رائے کوئی کسوٹی یا حتمی بات نہیں ،یہ دنیاکی سب سے کمزور ترین چیز ہے ،کیونکہ انسان بدلتا ہے تو اس کی رائے بھی بدل جاتی ہے ۔ انسان اوپر چلنا شروع کردے تو ولی بن جاتا ہے بلکہ ولیوں سے بھی بڑھ جاتا ہے اور فرشتے اس پر رشک کرتے ہیں لیکن پستی میں گرنا شروع کرے تو سب سے بڑا جاہل بن جاتا ہے ۔جب انسانی فطرت کو دوام ہے ہی نہیں تو پھر اس کی رائے بھی کوئی حتمی چیز نہیں ۔
قابل ، اوسط اور کمزور بچوں میں فرق
بچے کو اگر اسکول میں زیادہ نمبر لینے کی ترغیب دی جاتی ہے تو گھر میں والدین بھی یہی نصیحت کرتے نظر آتے ہیں،لیکن غیر جانب دار ہوکر جائزہ لیا جائے تو ایسے بچے جو ذہین اور قابل ہوتے ہیں ان میں کچھ بنیادی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں ،جبکہ کمزور اور متوسط بچوں میں کچھ اچھی صفات بھی پائی جاتی ہیں ۔آئیے ایک نظر ان پر دوڑاتے ہیں۔
کمزور بچوں کی پہلی خوبی : مشکل حالات کا مقابلہ
پڑھائی میں اوسط اور کمزور بچوں میں ایک خوبی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر قسم مشکلات سے سمجھوتا کرسکتے ہیں ۔زندگی میں ان کواگر مشقت و بے عزتی بھی اٹھانی پڑی تو وہ برداشت کرسکتے ہیں جبکہ اس کے برعکس کسی بھی قابل بچے کو آپ ہاتھ بھی نہیں لگاسکتے کیونکہ اس میں تلخیاں برداشت کرنے کا مادہ نہیں ہوتا۔
یہ بات یاد رکھیں کہ زندگی ہمیشہ اچھی نہیں ملتی ، یہ سونے کی پلیٹ میں پڑاہوا بسکٹ نہیں ہے ۔یہ کبھی تلخ ہے کبھی شیریں ، کبھی اوپر اور کبھی نیچے ،کبھی انسان کوحق ملتا ہے اورکبھی نہیں ملتا ،اس ساری بھاگ دوڑ میں متوسط بچے کو پہلے ہی سے اچھا خاصہ تجربہ ہوچکا ہوتا ہے ،جس کی بدولت وہ ان حالات کو برداشت کرکے زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے۔انسان،زندگی کے تجربات اور تلخیوں سے ہی باشعور بنتا ہے اور ٹھوکریں کھانے سے ہی انسان کو عقل آتی ہے ،بادام کھانے سے نہیں ۔قابل بچہ ہمیشہ اچھی چیزوں کا خواہشمند ہوتا ہے ،وہ زندگی سے آسانی چاہتا ہے اور زندگی اتنی آسا ن نہیں، جبکہ متوسط بچہ لچکدار ہوتا ہے اور ہر طرح کے ماحول اور حالات سے خود کوہم آہنگ کرلیتا ہے۔
دوسری خوبی :زیادہ تجربہ کار
متوسط بچے Street smartہوتے ہیں ۔ان بچوں نے اسکول ،کالج کے باہر کی زندگی دیکھی ہوتی ہے ، مختلف طرح کے چیلنجز دیکھے ہوتے ہیں ۔ ان کوزندگی میں کہیں نقصان ہوا ہوتا ہے ۔انہوں نے ہر طرح کے بحرانوں کو دیکھا ہوتا ہے اور بحرانوں کو دیکھنے والا ہی زیادہ ذہین اور تجربہ کارہوتا ہے۔یہ حالات ، واقعات اورمختلف طرح کے تلخ تجربات ان میں ہمت و حوصلہ او ر قابلیت پیدا کردیتے ہیں۔
تیسری خوبی:سماجی ذہانت
یہ لوگ سوشل جینیس ہوتے ہیں۔اسکول ،کالج میں نالائق اور متوسط لوگوں کے دوست زیادہ ہوتے ہیں جبکہ لائق بچہ اپنے علاوہ کسی کا سگا نہیں ہوتا۔یاد رکھیں! کامیابی کے لیے ناکام ہونا بہت ضروری ہے ۔انسان جتنا زیادہ ناکام ہوتا ہے اتنا ہی اس کا EQ(ایموشنل انٹیلی جنس)بنتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی میں کامیابی کے لیے 85فی صد ضرورت E-Q(سماجی ذہانت) کی ہوتی ہے۔سماجی ذہانت کا مطلب ہے کہ انسان کا لوگوں کے ساتھ رویہ کیسا ہے ،وہ ٹیم کیسے بناتا ہے، اس کے اندرحوصلہ ،برداشت ،ظرف ،رحم دلی،احساس اورہمدردی کتنی ہے؟ یہ سب عوامل مل کر انسان کو کامیاب بناتے ہیں۔
نمبرکتنے لینے چاہییں؟
اس ساری تفصیل کے بعد شاید کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ بس نمبر لینے کی ضرورت ہی نہیں اور وہ اس چیز کو نظرانداز کردے لیکن درحقیقت یہ بھی ایک غلطی ہے۔نمبر لینے کو نہ تو بالکل چھوڑا جاسکتا ہے کہ بچے ناکام ہی رہے اور نہ ہی اس کو زندگی کا مقصد بنایا جاسکتا ہے۔تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ نمبر کتنے لینے چاہییں؟اس کا جواب یہ ہے کہ نمبر ہر بچے کو اپنی قابلیت کے مطابق لینے چاہییں،کسی سے موازنہ کرکے نہیں۔انسان کا موازنہ دوسروں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے گزشتہ کل کے ساتھ ہوناچاہیے۔ والدین ہمیشہ اپنے بچے کی قابلیت اور گنجایش معلوم کیے بغیر اس سے امید اور توقعات لگالیتے ہیں کہ تم نے ہر حال میں 95فی صد نمبر لینے ہیں ،جبکہ اس کی قابلیت 50فی صدہوتی ہے اورپھریہیں سے مسائل اور ذہنی تناو شروع ہوجاتا ہے ۔وہ بچہ جب والدین کی توقع کے مطابق مطلوبہ نمبر حاصل نہیں کرپاتا تو اس سے والدین کا دل ٹوٹ جاتا ہے ، بچے کی حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے اور پھرایک دن اس کا ذہن اتنا کمزور ہوجاتا ہے کہ پھر 50فیصد نمبر لینا بھی اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
جب بچہ مکمل طورپر اپنی ساری توانائی نمبر لینے پر لگائے گا تو اس بات کازیادہ امکان ہے کہ وہ زیادہ نمبر لینے کے بارے میں سوچ سوچ کر ڈیپریشن کا مریض بن جائے ۔جو بھی بچے تعلیمی سفر میں ٹاپ پوزیشن لیتے ہیں وہ بعض اوقات ذہنی تناو کا شکار ہوجاتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے تعلیم میں ٹاپ کیا ہوتا ہے لیکن عملی زندگی میں ہر جگہ ٹاپ نہیں کیاجاسکتا۔جب والدین بچے کی کامیابی کو صرف نمبروں تک محدود کریں گے تو پھر ایدھی صاحب کا ایک بے مثال جملہ ہے کہ ’’ پاکستان میں پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔‘‘ہم ہی پر صادق آئے گا۔
وقت آگیا ہے کہ والدین اس غلط فہمی کو ذہن سے نکال دیں اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ گریڈ 4(جماعت چہارم) میں بچوں کو سبق یاد کرنے کے چند طریقے بتادیں،جن میں ایک طریقہ SQ3Rکا ہے اورایک طریقہ ’’مائنڈ میپ‘‘کا ، یہ دونوں طریقے یوٹیوب پر باسانی دستیاب ہیں جو کہ مائنڈسائنسز کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں ۔یہ دونوں طریقے سمجھانے کے بعد پریزنٹیشن کی مشق کروادیں تو آپ کے بچے کے نمبر لینے کا مسئلہ حل ہوجائے گا،جس سے نہ صرف آپ پریشانی سے بچ جائیں گے بلکہ بچے بھی ذہنی اذیت سے آزاد ہوجائیں گے۔




0 Comments
kindly no spam comment,no link comment