صندل🔥
(مکمل۔۔۔دردناک کہانی)💔
آمنہ بھٹی
پارٹ-1
ارمان _______پلیز فون اٹھاؤ
وہ جو پچھلے چار گھنٹوں سے ریلوے اسٹیشن کی بینچ پر بیٹھی مسلسل کئی گھنٹوں سے ارمان کو کال پر کال کر رہی تھی،
اب پریشان ہوتے ہوئے بولی
آرمان۔نے ایسا کبھی نہیں کیا تھا،اک بیل پر ہی وہ ہمیشہ اس کا فون اٹھا لیتا تھا،
پر۔۔۔ آج ایسا کیا ہوا ،کہ وہ مسلسل فون۔کرنے پر بھی ،کال پک نہیں کررہا تھا،
اللہ۔۔۔۔ جی مدد فرمائے،
اک بار پھر سے اسنے ٹرائی کیا اور اب کی بار فون آف کردیا گیا تھا،
یا۔۔ اللہ مدد فرما،
اردگرد نظر دوڑاتی وہ ڈرتے ڈرتے دل میں آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی،
آنجان شہر کہ ویران پڑتے پلیٹ فارم پر اب وہ اکیلی بیٹھی تھی،
لوگ آہستہ پلیٹ فارم سے اپنی منزل مقصود تک جانے لگے،پر اس کی منزل کا اب تک بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا،
لاہور ریلوے اسٹیشن پر اب ہو ۔۔کا عالم۔تھا،صبح سے شام ، اور اب شام سے رات ہونے لگی تھی،
ڈر کی وجہ سے اسکا ماتھا اور جسم پسینے سے شرابور ہوچکا تھا،
اپنے گھر سے اکیلے کبھی نہ باہر نکلنے والی وہ لڑکی آج ،
کراچی سے لاہور اک جھوٹی محبت کے دلاسے اپنی تمام تر کشتیاں جلا کر آئی تھی،۔
بار بار پریشانی سے وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظریں رکھتی تو کبھی پانی کی بوتل کو منہ سے لگاتی
تو کبھی آتے جاتے مسافروں کو دیکھتی،
دو رات جاگنے کے باعثِے آنکھوں میں اب نیند ڈولنے لگی تھی پر ابھی تک اسے کوئی سکون کا ٹھیکانہ میسر نہیں ہوا تھا،
بجلی کڑک کر اب بارش کی صورت اختیار کر گئی ،
_______________
ابو جی۔۔۔
بے ساختہ صندل کے منہ سے نکلا،
ارے۔۔۔ میرا بچہ میں ہو تو ڈر کیسا،
عادل صاحب ، ڈر سے آنکھیں میچتی صندل کو گلے لگات ہوئےے بولے
،وہ جانتے تھے وہ بجلی کڑکنے کی آواز اور بارش سے بہت ڈرتی تھی،
ابو جی۔۔۔ آپ نہ جائیے گا،
وہ اپنے ابو کے سینے سے لگے کانپتی آواز میں بولی ،
میرے بچے،
ابو جی اپنی صندل کو کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گے،
عادل صاحب نے ڈری سہمی صندل کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل صاحب کی کل کائنات ان کی اکلوتی بیٹی صندل تھی،
عادل صاحب کی صندل میں جان بستے تھی،
صندل کی امی اس کی پیدائش پر ہی اللہ کو پیاری ہوگئی
یوں عادل صاحب کی کل کائنات صندل بن گئی ،
سوتیلی ماں کے ظلم کے ڈر سے عادل صاحب نے کبھی دوسری شادی نہیں کی،
اب وہ ہی اپنی بیٹی کے دوست ،باپ ،ماں سب کچھ تھے،
دونوں اک دوسرے کے بغیر جیسے جی ہی نہیں سکتے تھے،
عادل صاحب ہمیشہ سائے کی طرح صندل کے ساتھ رہتے ،بن ماں کی بچی جو تھی وہ اس لیے وہ اسکا ڈبل خیال رکھتے،
دونوں اک دوسرے کے بغیر کھانا تک نہ کھاتے تھے،۔
وہ باپ کم دوست زیادہ تھے،
پھر وہ دن آیا جب دونوں کے بیچ،جھوٹ کی دیوار آگئی ،
عیدی جمع کرکے صندل نے موبائیل لیا،
اور وہاں سے اسکی بربادی شروع ہوگئی ،اک رونگ نمبر سے ارمان اسکی خوب صورت سی حسین زندگی میں اپنی جھوٹی محبت کا سیلاب لے ایا،
دونوں کے بیچ جھوٹ کی دیوار حائل ہوگئ،
صندل کا ہمیشہ کمرے میں بند رہنا رات رات بھر جاگنا ،عادل صاحب کو کچھ کٹھکا تھا
پوچھنے پر صندل نے ،کالج اسئمینٹ کا بہانہ بنا ڈالا،
پہلے دفع جھوٹ پر احساس شرمندگی ہوئی پر محبت میں بھٹکی وہ لڑکی،اب اپنے دوست جیسے باپ سے جھوٹ۔پر جھوٹ بولنے لگی تھی،
پھر اک دن جھوٹی محبت کا قصہ تمام ہوا،
ارمان نے محبت کا واسطہ دے کر،
گھر سے بھاگنے کا کہا،
صندل عادل صاحب کی اکلوتی اولاد تھی وہ کیسے اک انجان کو اپنی بیٹی دے سکتے تھے یہی وجہ تھی انھوں نے صندل کی بات ااسکی پھوپھو کے بیٹے ابراہیم سے کردی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان ۔۔۔۔۔میررری منگنی ہونے والی ہے ،
صندل نے ارمان کو مسیج کیا،
میں مرجاؤ گا تمھارے بغیر صندل
ہمارے پاس وقت کم۔ہے بھاگ چلو میرے ساتھ ،
ارمان نے حل بتاتے ہوئے کہا،
صندل نے اک دن کا ٹائم مانگا سوچنے کے لیے،
آخر کار جھوٹی محبت ،باپ کی سچی محبت کو مات دے گئ،
رات کے اندھیرے میں ،وہ چوری چھپے بھاگ گئی،
سولہ سالہ وہ لڑکی جس نے اکیلے کبھی دنیا کے باہر قدم تک نہ ڈالا تھا،
آج کراچی سے اکیلے،اک جھوٹی محبت کے خاطر لاہور اگئی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجلی دوبارہ زور سے کڑکی،
جب صندل ماضی سے واپس ائی،
سامنے ریلوے پر لگی بڑی گھڑی،آٹھ بجا رہی تھی،
رفتا رفتا رات اور ڈر دونوں مزید بڑھتا جارہا تھا،
بارش کے برسنے سے اب اس کا عبایا بھی بھیگنے لگا تھا،
آنکھوں سے نکلنے والے آنسوں ،بارش کے قطروں سے مل کر
اسکی گود میں رکھے ہاتھوں پر تیزی سے گر رہے تھے،
یا اللہ مدد کر میری۔۔۔۔۔۔
،ارمان پلیز اجاو۔۔۔۔۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے،
وہ آسماں کی طرف دیکھ کر بولی،
پر شاید باپ کو دھوکہ دینے پر اللہ بھی اس سے ناراض ہوگیا تھا
شاید،جبھی اسکی دعائیں قبول نہیں ہورہی تھی،
سفید چہرا خوف اور سردی بڑھنے سے اور بھی سفید پڑنے لگا تھا،
دور کھڑے کچھ اواہ لڑکے دھیرے دھیرے اب اس تک آرہے تھے،
وہ کسی بھوکے جانوروں کی طرح اسے ہی دیکھ رہے تھے،
ڈری سہمی بینچ پر بیٹھی کم عمر وہ لڑکی ،
ان بدماشوں کو اج اپنی عیاشی کا سامان لگ رہی تھی،
پر_ اسٹیشن پر پھرتا وہ چوکیدار ان کے بیچ اک دیوار بنا ہوا تھا،
جس کی ڈیوٹی ختم ہونے میں اب کچھ ہی وقت باقی رہ گیا تھا،
اس کا حلق اب مزید خشک پڑنے لگا،
بھوکے کتوں کی طرح دیکھتے وہ انسان نما حیواں اور اوپر سے بگڑتا موسم اس کو مزید ڈرا رہا تھا،
اسکی ریڑ کی ہڈی میں سنسنی خیز درد اٹھا تھا
خشک حلق پانی پینے سے بھی اب تر نہیں ہورہا تھا،
پچھتانے کے علاؤہ اور کوئی بھی راستہ اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا ،
جاری ہے
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment