Tarteeb Husan Hay/GENERAL ARTICLES

ترتیب حُسن ہے 

پانی کا ایک قطرہ بادل سے ٹپکا اور جنگل میں موجود اس گھنے درخت کے ایک پتے پرگرا۔پتا کچھ دیر کے لیے جھکا،پھر واپس اٹھا اور معمولی سا ترچھا ہوگیا۔قطرہ آہستہ آہستہ نیچے کی جانب سرکنے لگااور پھر وہ پتے کی سنگ چھوڑکر تالاب کے پرسکون پانی میں ٹپک پڑا۔پانی میں جیسے ہی ایک قطرے کا اضافہ ہوا،اس کی سطح پر ایک اتعاش پیدا ہوااورباریک لہریں ترتیب اور خوبصورتی کے ساتھ پھیلنے لگیں ۔ایک معمولی قطرے نے حسن ترتیب کاحسین منظرپیش کیا۔

shallow focus photo of flowers, BEAUTY

اگر سوال پوچھا جائے کہ دنیا کاسب سے بڑا حسن کیا ہے تو جواب ہوگا ’’حسنِ ترتیب‘‘ ۔رب کائنات کی پیدا کردہ تمام اشیاء میں آپ کو ایک چیز جو نمایاں اور خوبصورت نظرآئے گی وہ ’’ترتیب‘‘ ہے ۔اگر آنکھ سے ہوائیں دِکھنا شروع ہوجائیں تو ان کا رِدھم اور خوب صورتی دیکھ کر ہر انسان اَش اَش کراٹھے اور بے اختیار سبحان اللہ کہے ۔کبھی ریگستان میں جاکر دیکھیں تووہاں پڑی ریت بھی ایک مخصوص رِدھم اور ترتیب کے ساتھ ہوتی ہے ۔آپ سمندر کی لہروں کو دیکھیں تو وہ بھی اپنے انداز میں خوبصورت جلوے دکھاتی ہیں۔اللہ نے جتنی بھی خوبصورت چیزیں پیدا کی ہیں دراصل ان میں ترتیب ہے اور اسی ترتیب کا نام حسن ہے ۔

Landscape, Beach, Low Tide, Reflection

ترتیب ،حسن ہے
جن لوگوں کی زندگی میں ترتیب ،نفاست ، سلیقہ اور صفائی ستھرائی ہوتی ہے تو ان کا باطن بھی پاک ہونا شروع ہوجا تاہے ،یعنی ان میں کینہ ،بغض ،حسد اور نفس کی اٹھکیلیاں نہیں ہوتیں ۔یہ بظاہر ایک چھوٹا سا جملہ اور عام سا کام ہے لیکن اس کے اثرات دیکھیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جو شخص اپنے باظاہر کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کا باطن خود ہی ٹھیک کردیتا ہے ۔

ترتیب اور سلیقہ ’’حسن‘‘ہے 
اس کی مثال یوں سمجھیں کہ آپ کے سامنے ایک کاغذ کا ایک خوبصورت نیا نکور صفحہ پڑا ہوا ہے ،جس کا سائز، کنارے اور چمک اتنی دلکش ہے کہ انسان اس کو چھونا اور اُس پر لکھنا چاہتا ہے ۔لیکن اسی صفحے کو اگر مٹھی میں دبوچ لیں اور خوب تروڑ مروڑکر پھینک دیا جائے تو اب اس کو کوئی دیکھے گا بھی نہیں اور اس کا ٹھکانہ ’’کچرادان‘‘ہوگا۔اس صفحے کی جو پہلی حالت تھی وہ ترتیب اور سلیقہ تھا او ر اب جوحشر ہوا ہے یہ بدترتیبی کی اعلیٰ مثال ہے ۔ہماری زندگی میں اکثر و بیشتر یہی ہورہا ہوتا ہے ۔بیشترلوگوں کی زندگی میں سلیقہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہوتی۔وہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی زندگی بیزار بن گئی ہے جبکہ درحقیقت ان کی زندگی ٹھیک ہوتی ہے لیکن ان کے خیالات اس قدر بے ترتیب ہوچکے ہوتے ہیں کہ جو ان کی پوری زندگی کو شدید متاثر کرتے ہیں۔مراقبے کی ترغیب اسی لیے دی جاتی ہے کہ یہ انسان کے تمام خیالات کو ترتیب دے دیتا ہے۔
زندگی میں ترتیب کا ہونا بہت ضروری ہے۔ترتیب سے مراد صرف کتابوں کی الماری کی ترتیب نہیں ہر چیز کی اپنی ترتیب ہے۔مطالعے کی میز پر سجنے والا صفحہ جب بے ترتیب ہوجائے تو اس کا مقدر’’ ڈسٹ بن‘‘ ہوتا ہے ،یہی مثال انسان کی بھی ہے ۔اس کے ذہن میں کتنا کچھ ایسا ہوتا ہے جو بے ترتیب اور بے فائدہ ہوتا ہے اور جس کو پھینکنا ضروری ہوتاہے،لیکن وہ پھر بھی ان کو لے کر چل رہا ہوتا ہے ۔اس نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں ہوتا کہ میرے ذہن میں جو پراگندہ خیالات ہیں انہیں کسی جگہ چھپادینا چاہیے ، کیونکہ ہر وہ چیز جوبری ہوتی ہے انسان اس کودوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے ۔ہر وہ شخص جو دوسروں کے سامنے ناک صاف کردے اس کو کس قدر بد تہذیب شمار کیا جاتا ہے ۔اسی طرح ٹیبل مینرز میں یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے آپ نے دوسروں کی طبعیت کا بھی پورا پورا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ اگر کسی انسان کے منہ میں ہڈی آجائے توجس کو ٹیبل مینرز کا علم نہ ہو وہ منہ سے نکال کر سب کے سامنے رکھ دے گا جبکہ مہذب انسان ایسا نہیں کرے گا۔وہ ٹشو لے کر منہ پر رکھے گااور اس میں ہڈی ڈال کر کہیں سائیڈ پر چھپادے گا تاکہ کسی کو کراہت محسوس نہ ہو۔

اللہ کے پسندیدہ لوگ
اگرغور سے دیکھا جائے تو صفائی ستھرائی تہذیب کے ساتھ ساتھ دینی حکم بھی ہے اور دنیا کے ہرمذہب میں اس کی پرزورتاکید کی گئی ہے۔چنانچہ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 108میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’ اللہ صفائی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔‘‘ میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ صرف باہر کی صفائی نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی اندرونی صفائی بھی ہے اور جو انسان صرف باہر سے صاف ہو لیکن اندر سے نہ ہو تو وہ کو ’’منافق‘‘ ہوتا ہے۔
انڈیانا یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق وہ لوگ زیادہ خوش حال ہوتے ہیں جن کے گھر صاف ہوتے ہیں بنسبت ان لوگوں کے جن کے گھر گندے ہوتے ہیں۔‘‘اس کا مطلب یہ ہوا کہ خوشحالی کا بہت گہرا تعلق صفائی کے ساتھ ہے۔ خوشحالی ،اللہ کے کرم کی نشانی ہے ۔اب یہاں اگرہم ان کو آپس میں جوڑیں تو کچھ اس طرح سے نتیجہ نکلے گا کہ خوشحالی ،صفائی سے ہے اور صفائی کرنے والا اللہ کا پسندیدہ ہوتا ہے تو جو اللہ کا پسندیدہ ہوگا وہ کیسے پریشان ہو گا؟

ڈیپریشن کی وجہ،بے ترتیبی
’’پرسنالٹی سوشل سائیکالوجی بولیٹن‘‘ جریدے کی ریسرچ کے مطابق’’ جس جگہ پر بے ترتیبی ہو اور لوگ غیر منظم انداز میں رہتے ہوں وہاں تین چیزیں بڑھ جاتی ہیں ۔تھکاوٹ ، تناؤ اور ڈیپریشن اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے جسم میں موجودایک ہارمون’’کوٹیسول‘‘ کی مقدار اس صورت میں بڑھ جاتی ہے جس سے انسان ڈیپریشن اور تنائو کا شکار ہوجاتا ہے ۔‘‘اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس انسان کی زندگی میں ترتیب ہوگی اس کے کوٹیسول کا لیول نیچے رہے گا اور پھر اس کی زندگی میں نہ ڈیپریشن ہوگی ،نہ تناؤہوگا اور نہ ہی وہ تھکاوٹ کا شکار ہوگا۔ایک اور ریسرچ ’’پرنسٹن یونیورسٹی‘‘کی ہے جس کے مطابق ’’ بے ترتیب اور غیر منظم مقامات انسا ن کی توجہ اور فوکس کو ختم کرتے ہیں اور کام مکمل کرنے میں خلل پیدا کردیتے ہیں۔‘‘

Depression, Voices, Self-Criticism

ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کے اکثر کام ادھورے رہ جاتے ہیں ۔ا س کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بے ترتیب اور غیر منظم جگہ پر رہ رہے ہوتے ہیں ۔رہنے کا مطلب صرف گھر نہیں ہے بلکہ یہ انسان کا دفتر بھی ہوسکتا ہے ، دُکان بھی ہوسکتی ہے اوردو گھنٹے کی وہ فلائیٹ بھی ہوسکتی ہے جس میں آپ سفر کررہے ہیں۔آپ اپنا سامان کیسے رکھتے ہیں ۔ خود کیسے سنبھالتے ہیں۔یہ سب آپ کی فطرت اورباطن کو بیان کرتے ہیں۔

عبادت اور پاکیزگی
یہ بات یاد رکھیں کہ مہذب ہونے پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی مال دار ترین انسان ہو لیکن اس سے لوگوں کو کراہت محسوس ہوتی ہو اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی جھونپڑی میں رہنے والا ہو مگر انتہائی نفیس ہو۔دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کے جتنے بھی متبرک مقامات ہیں ،چاہے وہ کعبۃ اللہ ہے ،مسجد ہے ، چرچ ہے ،مندر ہے ،گوردوارہ ہے یا کلیسا ،یہ مقامات سب کے سب پاک اور خوشبودار ہوتے ہیں ۔ان تمام جگہوں کو منظم طریقے سے خو ب صورت بنایا جاتا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ جو جتنا پارسا اور عبادت گزار ہے وہ اتنا ہی پاک ، صاف اور منظم ہوگا ۔یعنی دنیا کی مقدس ترین جگہوں کا تعلق بھی صفائی اور پاکیزگی سے بہ نسبت دوسرے مقامات کے زیادہ ہے۔

ایک اور ریسرچ کے مطابق ذہنی صحت کا تعلق صفائی ستھرائی سے ہے ۔مرض ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنے آپ سے لاپروا کردیتا ہے او ر وہ پھر اپنے بارے میں خیال نہیں رکھتا ،لیکن بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو شدید بیماری میں بھی اپنی نفاست کو نہیں چھوڑ تے ۔جیسے کہ ہمارے قائد اعظم جب عمر کے آخری حصے میں ٹی بی جیسے خطرناک مرض میں مبتلا ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنی صفائی ستھرائی اور نفاست کو نہیں چھوڑا۔آپ ان کی آخری وقت کی تصاویر دیکھیں تو وہ بہت کمزور دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی نفاست ان کی شخصیت سے چھلک رہی ہوتی ہے ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ذہنی طورپر کتنے مضبوط انسان تھے ۔انسان کا جسم بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن اس کا ذہن بوڑھا نہیں ہونا چاہیے ۔دماغ ہمیشہ تازہ ،جوان اور فریش رہنا چاہیے ۔دماغ کی صحت مند ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ مطمئن رہے اور جس انسان کے پاس بھی گلے شکوے ہوتے ہیں ،اس کا مطلب ہے کہ وہ ذہنی طورپر تندرست نہیں ہے ۔

حسن ترتیب سے علاج
بدھ مت کے ایک مشہور بابا جن کا نام تھک لٹن ہے ،ان کا ایک مشہور جملہ ہے کہ’’ اگر برتن دھونے والا بھی شعور ی طورپر اس کو محسوس کرکے دھورہا ہے تو اس کی ذہنی صحت بڑھنا شروع ہوجاتی ہے ۔‘‘انسان صبح اٹھ کر اپنے بستر ،تکیے اور چادر کو ٹھیک کرکے گھر سے نکلے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذہنی طورپر صحت مند انسان ہے 

Clip Art, Mentally Ill, Psyche

۔مارڈرن ماہر نفسیات جورڈن پیٹرسن کے پاس جو بھی مریض علاج کے لیے آتا ہے تو وہ اس کا علاج بعد میں کرتے ہیں پہلے اس کو کہتے ہیں کہ گھر جاؤ اور اپنے کمرے کی ترتیب ٹھیک کرکے آؤ۔‘‘دراصل انسان کے اندر جس قدر تہذیب اور پاکیزگی ہوگی تو اگر وہ بیمار بھی ہوگا تو اس کا علاج خود ہی شروع ہوجائے گا۔ اس کو پھر کسی ڈاکٹر یا ماہر نفسیات کی ضرورت بھی نہیں ۔

Post a Comment

0 Comments