انجان محبت
۔۔۔پہلی قسط۔۔۔۔
محبت!!!!!
یہ لفظ سنتے ہی ایک سمجھ دار اور باشعور انسان کا ذہن کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے
اس کے ذہن کے دریچوں میں ایک ہی وقت منفی اور مثبت خیالات کی یلغار ہوتی ہے۔۔
کیونکہ محبت ایک ایسے سکے کی مانند ہوتی ہے جس کے دو پہلو ہوتے ہیں
جس طرح ایک سکے کے دونوں اطراف الگ الگ مناظر ہوتے
ہیں
اسی طرح محبت بھی ہر کسی کی زندگی میں مختلف پہلو لے کے آتی ہے۔۔۔
اب یہ دیکھنے والے کے نقطہ نظر پر منحصر ہے کہ وہ محبت کے کون سے پہلو کو دیکھ رہا ہے
محبت کی تاثیر اور اٹل حقیقت سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا
محبت کو منفی نظر سے دیکھنے والے ملن خوشیاں سکون اور وصال یار کو بھی صرف سمجھوتا قرار دیتے ہیں
جبکہ جو محبت کے مثبت اور حقیقی پہلو پر نظر رکھتا ہے اسے جدائی تڑپ اور تنہائی میں بھی سرور کی کیفیت اور سکونِ قلب نصیب ہوتا ہے۔
غرض محبت ایک ایسا احساس ہے جس سے آج تک پوری طرح کوٸی بھی پردہ نہیں اٹھا پایا کیونکہ محبت کا انوکھا احساس لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔۔۔
محبت کے احسسات جذبات وہی سمجھ سکتا ہے جسکا دل کھوٹ سے پاک ہو۔۔۔
محبت وہ پاک جذبہ ہے جو پاک دلوں میں کونپلوں کی طرح پھوٹتا ہے۔۔۔
"محبت عطا خداوندی ہے"
محبت سب سے پہلے اللّہ نے اپنے رسول سے کیا۔
شعر۔۔
*اول حمد خدا دا ورد کیجے
عشق کیتا سو جگ دا مول میاں
پہلوں آپ ھی رب نے عشق کیتا
تے معشوق ھے نبی رسول میاں
خیر یہ کہانی محبت کے فلسفے کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہے
اس لیے اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں
محبت کا مختصر تعارف کروانا ضروری تھا
کیونکہ اس کہانی میں محبت کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی
اب آتے ہیں کہانی کے آغاز کی طرف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔........
میکس اور اسکا دوست جان نیویارک کے مشہور کال سینٹر میں جاب کرتے ہیں۔۔
اس وقت دونوں اپنے آفس میں موجود تھے جو کہ ایک کشادہ شیشہ نما کیبن تھا۔
جہاں سامنے کے شیشے سے صاف باہر کے مناظر دکھاٸی دیتے
آفس کی لڑکیاں لڑکے اپنے کاموں میں مشغول تھے جن پر وہ گاہے بگاہے نظر ڈال لیتا۔۔۔
جان جو کب سے اسے کچھ کہہ رہا تھا جسے سنا ان سنا کر وہ باہر دیکھ رہا تھا مسلسل۔۔
کافی دیر بعد جب جان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ چیخ ہی پڑا۔۔
میکس تم بہرے ہو گئے ہو کیا؟
جو تمہاری صورتحال ہے آجکل تمہارے ساتھ ساتھ میری نوکری بھی جائے گی۔۔۔
اسکی آواز میں نمایاں غصہ تھا
جان کی آواز سے میکس خیالات کی دنیا سے باہر نکال دآیا
اور حیران ہوتے اس کی صورت دیکھنے لگا
اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو جلدی سے کال اٹھاؤ جان نے مصنوعی غصے سے کہا۔
میکس نے کال اٹھا کر سنی ان سنی کی اور پھر سے باہر دیکھنے لگا جہاں سے نظر ہٹانا آجکل اس کے لیے نا ممکن سا ہوتا جا رہا تھا۔۔
اس کے حسین چہرے کے پر نظر جماۓ وہ پھر سے اس کے خیالات میں محو ہو گیا
جو بالکل اس کے سامنے بیٹھی نہایت دیانت داری سے اپنا فریضہ سرانجام دے رہی تھی
وہ تھی ہی ایسی کہ جو کوئی بھی اسے دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔۔۔
امریکہ جیسے ملک میں رہتے ہوئے بھی مشرقی حسن کا بہترین شاہکار تھی۔
چہرے پر بلا کی معصومیت
اس کے ساتھ ساتھ کام سے اس کا لگاؤ جو آفس میں اسے سب سے نمایاں رکھے ہوۓ تھا
کبھی کبھی وہ یہ سوچ کر حیران رہ جاتا تھا کہ اتنی خوبصورت شکل و صورت اور اتنا مہذب انداز
اس پر بھی غرور و تکبر کا ذرہ بھر شائبہ تک نہیں ہوتا
اوہ جیزس کرائسٹ
تم نے دنیا میں ایسی صورتیں بھی پیدا کی ہیں۔۔
جنہیں دیکھ کر جنت کی حوروں کا گمان ہونے لگتا ہے
اس حسین دوشیزہ کو لے کر وہ اپنے خیالی پلاؤ پکانے میں مصروف تھا کہ جون نے زور سے میکس کے پاؤں پر ٹانگ مار دی
میکس نے غصے سے جھنجھلا کر جون کی طرف دیکھا تو جون نے سامنے اشارہ کیا
سامنے اس کال سینٹر کے مینیجر کھڑے تھے
جس کی زیر حکم جون اور وہ دوشیزہ گزشتہ ایک سال سے نوکری کر رہے تھے
ان کا نام غلام رسول تھا
وہ مسلمان تھے
شروع شروع وہ اس بات پر بڑا حیران ہوتا تھا کہ امریکہ کے ایک بہت بڑے ادارے کے کال سینٹر کے مالک کو ایسی کیا سو جھی کہ اس نے ایک مسلمان کو کو اتنے بڑے ادارے کا مینیجر بنا دیا
لیکن بعد میں بات اچھی طرح سے اس کی سمجھ میں آ گئی
ان کی طبیعت ہی کچھ اس طرح کی تھی
اپنے کام کو لے کر انتہائی ایماندار تھے اور دوسروں کے کام پر بھی ان کی مستقل نظر ہوتی تھی مجال ہے جو ان کی موجودگی میں کوئی کسی قسم کی ہیر پھیر کر جائے یا سستی دکھائے۔۔
خیر انہوں نے میکس کو کہا کہ میکس تمھیں شرم تو نہیں آتی
سب لوگ اپنے اپنے کام اچھے طریقے سے کر رہے ہیں جب کہ تم خیالوں کی دنیا میں کھوئے ہوئے ہو
میں تمہیں پہلے بھی کئی بار تنبیح چکا ہوں کہ کام کے وقت صرف اور صرف کام پر دھیان دیا کرو
اتنا کہتے وہ مسکراتے ہوئے آگے اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئے
اور میکس ہکا بکا اور شرمسار سا اپنی کرسی پر بیٹھا رہا
میکس نے مینیجر کے جاتے ہی سارا غصہ جون پر نکالنا شروع کر دیا
جون کے بچے تمہیں شرم نہیں آئی اتنی زور سے ٹانگ مارتے ہوئے؟
میں تو تمہیں کب سے وارن کر رہا تھا کہ خیالات کی دنیا سے باہر آجاؤ نہیں آۓ تو مجبوراً مجھے ایسا کرنا پڑا
لیکن تم تو اس شیطان لڑکی کے تصور میں اس طرح کھوئے ہوئے تھے کہ تمہیں کسی کی موجودگی کا احساس تک نہ تھا۔۔
جبکہ ایک سال میں تمہاری اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ جا کر اس سے اس کا نام تک پوچھ لو۔۔
جون نے اس پر طنز کرتے ہوئے اپنی دلی بھڑاس نکالی
یار میکس میں اس بات پر حیران ہوں کہ امریکہ میں رہتے ہوئے تم میں مشرقی تہذیب کے اتنے گہرے اثرات کہاں سے پیدا ہوئے؟
جون نے اپنی آنکھیں گھما کر پوچھا۔۔۔
یار میں ڈرتا ہوں کے اس سے ہم کلام ہونے کے بعد کوئی برا تاثر لے کر نوکری سے ہی استعفیٰ نہ دے دے
ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا جان نے میکس کو تسلی دیتے ہوئے کہا تم ایک دفعہ مت کر کے تو دیکھو
سب بہتر ہو جائے گا
چلو اگر تم کہتے ہو تو کل میں اس سے بات کرنے کی کوشش کروں گا میکس نے یہ کہہ کر بات ختم کی اور وہ دونوں اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔
شام کے سائے سورج کی دھیمی سی روشنی کو بھی اپنے حصار میں لینا شروع ہو گئے
کال سینٹر کی شفٹ تبدیل ہونے کا وقت ہوگیا
چلو یار جان چھٹی کا وقت ہو گیا ہے مینیجر صاحب سے پوچھ کر گھر کی طرف نکلتے ہیں میکس جان کو اٹھاتے ہوئے بولا
وہ دونوں مینیجر کے کیبن میں گیا ان سے اجازت لے کر واپس گھر کی طرف نکلے
میں کس کے پاس چوکے اپنی گاڑی تھی وہ روز جان کو اس کے گھر ڈراپ کردیا کرتا تھا کیونکہ اس کا گھر میں کس کے گھر کے راستے میں پڑتا تھا
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے ہو اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے
میکس کی عادت ٹھیک ہے وہ کار ڈرائیو کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی رومانٹک گانا لگا رکھتا تھا
معمول کے مطابق مدھم سی آواز میں کار میں میوزک چل رہا تھا
میکس کار ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا جبکہ جان گانے کی لے پر رقص کرنے میں مصروف تھا
ارے یار جان بس بھی کرو کیا بے ہودہ ڈانس کیے جا رہے ہو
یہ کہتے ہوئے میکس کی نظر جب کار کے شیشے پر پڑی تو وہ کھو سا گیا
گاڑی کے فرنٹ میررمیں اسے دو آنکھیں نظر آئیں جو اسے اپنے قابو میں کئے جا رہی تھی
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
دوسری قسط کے لیے اس لنک پر کلک کریں
https://urdufactsoflife.blogspot.com/2020/06/aik-anjan-mohabatepisode-2short-stories.html
دوسری قسط کے لیے اس لنک پر کلک کریں
https://urdufactsoflife.blogspot.com/2020/06/aik-anjan-mohabatepisode-2short-stories.html
0 Comments
kindly no spam comment,no link comment